عمران نے سپریم کورٹ کا فیصلہ درست قرار دے دیا

0

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے ملعونہ آسیہ کی رہائی کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ درست اور آئین کے مطابق قرار دیا ہے ۔وزیر اعظم نے فیصلے پر احتجاج کرنے والوں کو چھوٹا طبقہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام سیاست چمکانے اور ووٹ بینک بڑھانے کیلئے اکسانے والوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ججوں اورجرنیلوں کودھمکیاں دینا قابل قبول نہیں۔احتجاج کرنے والے ہمیں اس طرف نہ لے جائیں کہ ریاست ایکشن لینے پر مجبور ہو۔توڑ پھو ڑ نہیں ہونے دیں گے۔ریاست سے نہ ٹکرایا جائے ورنہ ریاست ذمہ داری پوری کرے گی ۔عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی ،توڑ پھوڑ ہونے دیں گے اور نہ ہی ٹریفک رکنے دی جائے گی ۔بدھ کی شام قوم سے کیے گئے چوتھےمختصر ترین خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر بنا ۔ججوں نے اس آئین کےمطابق فیصلہ دیا جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہے ۔پاکستان کا کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں۔پاکستان کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے، اگر وہ نہیں بنائیں گے تو قیام پاکستان کا مقصد فوت ہوجائے گا ۔ایک طبقہ عام انسان کے جذبات بھڑکا کر امن و امان کو نقصان پہنچانے کیلئے کوشاں ہے۔ آمد و رفت کےراستے بند کئے جا رہے ہیں جو ناقابل برداشت ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے عملاً وہ کام کیےجو سابق حکومتوں نے نہیں کیے۔ہالینڈ کے ایک پارلیمنٹرین نے شان رسالتؐ میں گستاخی کرتے ہوئے خاکوں کے مقابلوں کا اعلان کیا تو واحد ملک پاکستان تھا جس نے ہالینڈ کے سفیر سے بات کی اور وزیر خارجہ سے بھی شکایت کی جس پر ڈچ پارلیمنٹرین کو مقابلہ سے دستبردار کرایا گیا ۔ معاملہ پہلی بار اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا۔اسی کے نتیجے میں یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اپنے فیصلے میں نبی کریمؐکی شان میں گستاخی کورائے کی آزادی ماننے سے انکار کر دیا۔ وزیر اعظم نے عدالتی فیصلے پر احتجاج کے دوران ججوں کو واجب القتل اور آرمی چیف کے ایمان پر انگلی اٹھا کر جرنیلوں سے بغاوت کی باتوں پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے خلاف شہریوں کو اکسانا اسلام کی خدمت نہیں عوام کی دشمنی ہے۔یہ لوگ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مرضی کے برعکس فیصلے انہیں قبول نہیں ۔اگر سپریم کورٹ کے فیصلے انہیں پسند نہیں تو کیا یہ لوگ ملک روک دیں گے؟۔ سرگرمیوں کا مقصد سیاست کو چمکانا اور ووٹ بینک بڑھانا ہے ۔عوام سے اپیل ہے کہ وہ ان کی باتوں میں نہ آئیں اور یہ عناصر سیاست چمکانے کے لیے ریاست سے نہ ٹکرائیں ورنہ ریاست ذمہ داریاں پوری کرے گی ، اس لئے ریاست کو ایکشن لینے پر مجبور نہ کیا جائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More