وزیراعظم کا خطاب جارحانہ تھا-اپوزیشن-جرات دکھائی-حکومت
اسلام آباد(بیورورپورٹ/مانیٹرنگ ڈیسک)قومی اسمبلی میں آسیہ کیس کے فیصلے اور وزیراعظم کے خطاب سے پیدا ہونے والی صورتحال پر گرما گرم بحث ہوئی حکومتی ارکان نے وزیراعظم کے خطاب کو جرات مندانہ قرار دیا جبکہ بلاول نے بھی عمران کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ تاہم دیگر اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا خطاب پر تشدد اور جارحانہ تھا مظاہرین کیخلاف طاقت استعمال نہیں ہونی چاہئے،اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کے حالات پر بحث ہوئی۔پی پی کے رہنما خورشید شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ نے کہا کہ کل وزیراعظم کی تقریر میں تشدد نظر آیا،اس سے امن قائم نہیں ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ کونسا مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت کرےگا، اس نام پر مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کو ٹارگٹ نہیں بنانا چاہتے، لڑائی نہیں کرنا چاہتے، ہم چاہتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے، اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور ملکی حالات پر حکومت کو تحمل کے ساتھ باتیں سننی چاہیے۔پیپلز پارٹی رہنما نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب چینی صدر شی جن پنگ پاکستان آرہے تھے اور آپ کنٹنیر پر چڑھے تھے، آج آپ چین جا رہے ہیں، آپ کو پارلیمنٹ آنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ ‘حکومت کو چاہیے کہ کھل کر بولے، لیکن وزیراعظم ایوان میں آئیں، انہیں اس ایوان سے بھاگنا نہیں چاہیے۔خورشید شاہ نے کہا کہ یہی بات کل جب میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو کہتا تھا تو پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری اور شفقت محمود ڈیسک بجاتے تھے، میرے موقف میں تبدیلی نہیں ہے، آپ کے موقف میں آ گئی ہے۔انھوں نےکہا کہ آج ملک میں معمولات زندگی متاثر ہیں، آج تشدد ہو رہا ہے، ہائی ویز اور راستے بند ہیں، لوگ گھروں میں بند ہیں۔ وزیراعظم کے ہر لفظ میں پالیسی ہوتی ہے، وزیر اعظم کے خطاب سے لگ رہا تھا کہ وہ باہر نکل کر لڑنے والے ہیں۔ جو ان لوگوں نے کہا یا نہیں کہا وہ وزیر اعظم نے کہہ دیا۔ وزیر اعظم کی کل کی تقریر کی مذمت کرتا ہوں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں اسمبلی میں آکر پالیسی بیان دینا چاہیے۔خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکمران کا رویہ جارحانہ نہیں ہونا چاہیے، وزیراعظم کو ایوان میں آکر اس صورت حال پر اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں کوئی سیاسی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا، لیکن جس کارڈ کو ماضی میں استعمال کیا گیا، وہی اب آپ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے’۔سعد رفیق نے کہا کہ آج پاکستان میں بحرانی کیفیت ہے، کچھ عناصر مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے پھر سڑکوں پر ہیں، لیکن ان کے بیانیے سےکوئی باشعور شہری اتفاق نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ گزشتہ سے پیوستہ ہے، جس مذہبی کارڈ کو کل گزشتہ حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا، وہ آج آپ کے خلاف ہو رہا ہے۔سعد رفیق نے عمران خان کو مخاطب کرکے کہا، کچھ عرصہ پہلے آپ لاک ڈاؤن کررہے تھے، آپ کو اس رویے پر ندامت ہونی چاہیے کہ آئندہ ایسا غیر دانش مندانہ رویہ استعمال نہیں کریں گے۔لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ جو کچھ قومی اداروں کے خلاف کہا گیا، وہ ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید ہوتی ہے لیکن دھمکیوں کا کوئی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہیے، وزیراعظم اس بات پر پالیسی بیان دیں اور افہام و تفہیم کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں۔وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد حکومت کی ذمے داری ہے لیکن ہمیں افسوس ہوا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سیاست کھیلی گئی، خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کی مذمت نہیں کی، اس سے پہلے جب ایسے واقعات ہوتے تھے تو حکومت کی جانب سے خاموشی چھا جاتی تھی، لیکن عمران خان بہادری کے ساتھ آئے اور 22 کروڑ عوام کے سامنے حکومت کا موقف بتایا۔ عمران خان نے حکومتی موقف بہادری کے ساتھ 22 کروڑ عوام کے سامنے پیش کیا، انہوں نے صاف کہا کہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا برداشت نہیں کریں گے۔ اپوزیشن کو بے جا تنقید کے بجائے قانون کی حکمرانی کیلیے اکٹھے ہونا چاہیے۔