خودنوشت میں ملعونہ کا بالواسطہ اعتراف عدالت میں زیربحث نہیں آیا

0

امت رپورٹ
گستاخی کے الزام میں ننکانہ کی ماتحت عدالت اور لاہور ہائیکورٹ سے سزائے موت پانے والی اور سپریم کورٹ میں بری قرار دی گئی آسیہ ملعونہ کی رہائی کا حکم ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے 4 اہم نکات کی بنیاد پر جاری کیا ہے۔ تاہم ایک پانچواں نکتہ کسی عدالت میں زیر بحث نہیں آیا اور وہ آنحضورؐ کے بارے میں گستاخانہ جملے کہنے سے متعلق آسیہ ملعونہ کا بلواسطہ اعتراف ہے جو اس نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے۔ اسی اعتراف کی بنا پر آسیہ ملعونہ کو مغرب بالخصوص اٹلی اور برطانیہ میں ’’مسیحی ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا گیا اور اس کی رہائی کیلئے مہم چلائی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں جو چار نکات زیر بحث لائے گئے ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ آسیہ کے خلاف گواہی دینے والی دونوں بہنوں معافیہ اور اسما کا اس سے جھگڑا ہوا تھا، لہٰذا ان کے پاس جھوٹا الزام لگانے کی وجہ موجود تھی۔ دوم یہ کہ آسیہ ملعونہ نے عدالت کے باہر (ماورائے عدالت) لوگوں کے سامنے جو اعتراف جرم کیا وہ سزا کی بنیاد نہیں بن سکتا کیونکہ وہ ’’غیرمحفوظ اور خوفزدہ‘‘ تھی اور اس کا اعتراف عدالت میں دیا گیا ’’رضاکارانہ‘‘ بیان نہیں سمجھا جاسکتا۔ تیسرا نقطہ ماتحت عدالت میں آسیہ ملعونہ کے وکیل کی جانب سے استغاثہ کے گواہوں پر خاطر خواہ جرح نہ ہونا ہے۔ چوتھا نکتہ ایف آئی آر کے تاخیر سے اندراج سے متعلق ہے۔ ان چاروں اہم نکات پر لاہور ہائیکورٹ نے بھی اپنے 16 اکتوبر 2010ء کے فیصلے میں بات کی ہے۔ عدالت عالیہ نے اس بات کو نوٹ کیا کہ ماتحت عدالت میں آسیہ کے وکیل نے اپنی موکلہ کا دفاع ’’درکار سنجیدگی‘‘ سے نہیں کیا اور استغاثہ کے الزام سے انکار نہیں کیا۔ تاہم عدالت نے آسیہ کی سزائے موت برقرار رکھی جبکہ استغاثہ کے گواہوں، ایف آئی آر واقعے کے پانچ روز بعد درج ہونے اور عدالت کے باہر ملزمہ کے اعتراف جرم پر اعتراضات یکسر مسترد کردیئے۔ سپریم کورٹ نے انہی چار نکات پر دوبارہ غور کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا، اس میں آسیہ کوبری کیا گیا ہے۔ ان چار نکات میں بھی سب سے اہم یہ ہے کہ کیا ملزمہ نے گستاخی سے متعلق کہیں ایسا اعتراف کیا ہے جو کسی دبائو کے تحت نہ ہو؟ اس کا جواب آسیہ ملعونہ کی خودنوشت سے مل سکتاہے۔ تاہم 2013ء میں شائع ہونے والی اس خودنوشت کے مندرجات نہ تو لاہور ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں زیربحث آئے۔ اگرچہ عدالتوں میں آسیہ ملعونہ نے حضرت محمدؐ کے بارے میں کچھ کہنے یا کسی قسم کی گستاخی سے انکار کیا، تاہم کتاب میں اس کا موقف ہے کہ جھگڑے کے دوران اس نے دو گستاخانہ جملے ادا کئے تھے۔ ادارہ امت یہ جملے نقل نہیں کر سکتا، لیکن ان سے آنحضورؐ اور حضرت عیسیٰؑ کے درمیان تقابل کا تاثر بنتا ہے اور حضرت عیسیٰؑ کو بالاتر بتانے کی کوشش کی گئی۔
2009ء میں جب آسیہ ملعونہ کے خلاف مقدمہ بنا تو خود ملزمہ اور اس کے حامیوں کا یہی موقف تھا کہ وہ ایک ان پڑھ عورت ہے جو مذہب سے متعلق زیادہ نہیں جانتی اور ذاتی دشمنی پر اسے مذہبی معاملے میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ننکانہ صاحب کی عدالت میں 20 اکتوبر 2010ء کو آسیہ ملعونہ نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے حضرت محمدؐ کی شان رسالت میں کوئی گستاخی نہیں کی اور نہ ہی قرآن پاک کے بارے میں نازیبا جملے کہے ہیں، بلکہ استغاثہ کی گواہ دونوں بہنوں نے ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے اس پر الزام عائد کیا۔ دفعہ 342 کے تحت ریکارڈ کرایا گیا آسیہ ملعونہ کا یہ بیان ماتحت عدالت کے فیصلے میں موجود ہے جس میں وہ کہتی ہے ’’میں ان پڑھ ہوں، عیسائیت کی کوئی پادری نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گائوں میں کوئی چرچ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اسلامی نظریات سے لاعلم ہونے کی بنا پر میں حضرت محمدؐ اور الہامی کتاب قرآن پاک کے بارے میں ایسے الٹے سیدھے اور گستاخانہ ریمارکس کیسے دے سکتی ہوں۔‘‘ یاد رہے کہ آسیہ کے خلاف عدالت میں جو الزامات ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؐ اور قرآن پاک سمیت اسلام کے بارے میں وہ کافی کچھ جانتی تھی جس کی بنا پر اس نے گستاخانہ باتیں کی۔ اس بات کو غلط ثابت کرنے کیلئے آسیہ ملعونہ کا یہ موقف تھا کہ چونکہ وہ ان پڑھ اور اسلامی نظریات سے ناواقف ہے لہٰذا اس کا ایسی باتیں کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کیس کی ابتدا میں اس کے حامیوں نے بھی ’’ان پڑھ ‘‘ عورت کا یہ موقف اپنایا۔
تاہم آسیہ ملعونہ نے اپنی کتاب Blasphemy: A Memoir: Sentenced to Death Over a Cup of Water (توہین: ایک یاداشت، پانی کے ایک پیالے پر موت کی سزا) میں جو باتیں لکھی ہیں وہ اس ان پڑھ عورت والے بیان سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ 2013ء میں شائع اس کتاب کے مصنفین کے طور پر آسیہ ملعونہ اور فرانسیسی خاتون صحافی این ایزابیل کے نام دیئے گئے ہیں۔ کتاب کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ ملزمہ نے جیل سے یاداشتیں لکھ کر بھیجیں جنہیں این ایزابیل نے کتابی شکل تھی۔ اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ گائوں کی عورتوں سے پانی کے معاملے پر ملزمہ کا جھگڑا ہوا۔ اس جھگڑے میں ملزمہ نے دوجملے ادا کیے۔ کتاب میں درج ان جملوں سے حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدؐ میں تقابل اور شان رسالت پر سوال اٹھائے جانے کا تاثر بنتا ہے۔ ادارہ ’’امت‘‘ یہ الفاظ یہاں نقل نہیں کررہا۔ آسیہ ملعونہ کی کتاب سے یہ جملے کئی دیگر کتابوں اور اخباری رپورٹوں میں بھی نقل ہوئے۔ ان جملوں کے ذریعے مغرب میں ملعونہ کو اس انداز میں پیش کیا گیا، جیسے اس نے اسلام کے خلاف عیسائیت کی کوئی جنگ لڑی ہے۔ کتاب میں ہی یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ جھگڑے کے بعد مسلمان عورتوں نے ملزمہ کو توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کیلئے کہا تھا۔ جب اس نے یہ بات نہیں مانی تو اسے پر مقدمہ بنا دیا گیا۔
آسیہ ملعونہ کو مسیحی ہیرو بنانے کیلئے چلائی گئی مہم میں نہ صرف اس کتاب بلکہ ملعونہ کے شوہر عاشق مسیح کے انٹرویوز اور تقاریر سے اہم کردار ادا کیا جن میں عاشق مسیح کا بار بار کہنا تھا کہ مسیح کیلئے آسیہ مرنے کو بھی تیار ہے۔ 8 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے سے قبل کیتھولک نیوز سروس نے عاشق مسیح کا ایسا ہی ایک انٹرویو شائع کیا جس میں عاشق مسیح کا کہنا تھاکہ وہ اور ان کی بیٹیاں یکم اکتوبر کو ملتان جیل میں ملزمہ سے مل کر آئے ہیں۔ عاشق کا کہنا تھاکہ’’وہ (آسیہ) نفسیاتی، جسمانی اور روحانی اعتبار سے مضبوط ہے۔ اس کا عقیدہ مضبوط ہے۔ وہ مسیح کیلئے مرنے کو تیار ہے۔ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گی۔‘‘ اسی گفتگو میں عاشق مسیح نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کئی ممالک نے پناہ کی پیش کش کی ہے اور جیسے ہی اس کی بیوی کو رہا کیا گیا وہ ان میں سے کسی ایک ملک میں پناہ لے لیں گے کیونکہ پاکستان میں کوئی جگہ اس کی بیوی کیلئے محفوظ نہیں۔ عاشق مسیح کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’وہ (ملعونہ) اپنی زندگی بڑے مضبوط عقیدے سے گزار رہی ہے اور ہر روز بائبل پڑھتی ہے۔‘‘
اپنی خود نوشت میں آسیہ ملعونہ نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 14 جون 2009ء کو فالسے کے کھیت میں آسیہ اور مسلمان خواتین کے درمیان جھگڑے میں مذہبی بحث ضرور ہوئی تھی جس سے آسیہ ملعونہ نے بعد ازاں عدالت میں انکار کیا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اتفاقی نوٹ میں بھی دو امکانات ظاہر کیے گئے ہیں ’’اولاً یہ کہ اپیل گزار (آسیہ) نے اشتعال انگیز الفاظ اپنی ساتھی مسلمان خواتین کے ہاتھوں اپنے مذہب کی توہین اور اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے کے بعد کہے یا دوئم، اپیل گزار اور اس کی مسلمان ساتھی خواتین کے درمیان جھگڑا ہونے کی وجہ سے اپیل گزار کی جانب سے کوئی اشتعال انگیز الفاظ استعمال نہ کرنے کے باوجود مسلمان خواتین نے اپنے جھگڑے سے متعلق دوسروں کوبتایا کہ جنہوں نے معاملے پر پانچ روز غوروفکر کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اپیل گزار کو گستاخی کے جھوٹے الزام میں پھنسائیں گے۔‘‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید لکھا کہ ان دونوں ممکنات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ تاہم آگے چل کر انہوں نے تحریر کیا ’’استغاثہ کی جانب سے دی گئی شہادتوں میں موجود سنگین تضادات کے تناظر میں یہ یکساں طور پر معقول محسوس ہوتا ہے کہ اپیل گزار اور اس کی مسلم ساتھی خواتین کے مابین جائے وقوعہ پر ایک جھگڑا ہوا جس میں اپیل گزار (آسیہ) نے کسی قسم کے توہین آمیز الفاظ نہیں کہے۔‘‘
محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ اتفاقی نوٹ میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزمہ نے کوئی توہین آمیز الفاظ نہیں کہے تھے۔ لیکن ملعونہ کی خودنوشت سے کچھ اور ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کتاب ایک اضافی ثبوت بن سکتی تھی۔ قانونی ماہرین کے مطابق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلوں کی سماعت کے دوران نیا ثبوت پیش نہیں جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کتاب زیر بحث نہیں آئی۔ تاہم مقدمے کے ری ٹرائل (دوبارہ سماعت) کی صورت میں نئے ثبوت زیر غور آسکتے تھے۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں بعض مذہبی حلقوں کا مطالبہ رہا ہے کہ سپریم کورٹ میں ری ٹرائل کا حکم دینا چاہیے تھا۔ ایڈووکیٹ شعیب صفدر گھمن کے مطابق اب ری ٹرائل کا امکان بہت معدوم ہوگیا ہے۔ کیونکہ ریویو پٹیشن میں بالعموم ری ٹرائل کا حکم نہیں دیا جاتا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے شعیب صفدر گھمن کا کہنا تھا کہ ’’کتاب سے قطع نظر بھی مقدمے میں استغاثہ کے ثبوت بہت مضبوط تھے۔ سب سے مضبوط نقطہ یہ تھا کہ آسیہ پرجوالزام لگایا گیا اس سے کہیں انکار نہیں کیا گیا۔ آسیہ کی بریت کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سزا کے لیے ’شک و شبہ سے بالاتر‘ ہو کر جرم ثابت ہونے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ اور استغاثہ کی کہانی میں ’’جھول‘‘ کی بنیاد پر آسیہ کو بری کیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام حقائق سامنے رکھے جائیں تاکہ آسیہ کی بے گناہی یا جرم بلاشک وشبہ ثابت ہو تاکہ بے گناہ نکلنے پر کل کلاں مغرب میں اسے اسلام کے خلاف عیسائیت کی جنگ لڑنے والی خاتون کے طور پر پیش نہ کیا جاسکے۔ جس کا تاثر آسیہ کی خودنوشت اور عاشق مسیح کے انٹرویوز میں دیا گیا۔ اور مجرم ثابت ہونے پرسزا ملے تاکہ آئندہ کوئی بھی قانونی دائو بیچ کے ذریعے گستاخی کی سزا سے بچ نکلنے کی امید نہ رکھے۔‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More