سرفروش

0

قسط نمبر: 163
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے ان سے مزید معلومات لینے کی کوشش کی، لیکن کوئی کام کی بات معلوم نہیں ہو سکی۔ میں نے راستے کی مزید تصدیق کرنے کے بعد سوال کیا۔ ’’آپ نے جوکچھ بتایا، اس کی روشنی میں تو مجھے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے میں گردیال پور پہنچ جانا چاہیے‘‘۔
پردھان نے کہا۔ ’’اگر آپ کی جیپ جان دار ہے اور آپ بے ڈھب راستوں پر گاڑی چلانے میں مہارت رکھتے ہیں تو جلدی بھی پہنچ سکتے ہیں‘‘۔
میں نے گرم جوشی سے ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب کی۔ ان کی طرف سے چائے کی پیشکش ٹھکراکر میں ان کی محفل سے نکلا تو ٹھنڈ کچھ زیادہ ہی بے رحم محسوس ہوئی۔ تاہم حسب توقع جیپ پہلی ہی کوشش میں جاگ اٹھی اور میں حتی الامکان تیزی سے ان دیہاتیوں کے بتائے ہوئے راستے پر آگے بڑھنے لگا۔ پہلے ڈھالی وال اور پھر بھنڈر بستی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے میری جیپ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر تیزی سے مسافت طے کر رہی تھی۔
بادشاہ پور قصبہ میرے اندازے سے بڑا ثابت ہوا۔ وہاں زندگی پوری طرح محو خواب نہیں ہوئی تھی۔ اکا دکا دکانیں بھی کھلی دکھائی دیں۔ لیکن میں رکے بغیر آگے بڑھتا چلا گیا۔ امر دیپ نے پٹیالا سے روانہ ہوتے ہوئے جیپ کی ٹینکی فل کروالی تھی، لہٰذا ایندھن لینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ بادشاہ پور سے ننھیرا قصبے تک کا فاصلہ میں نے لگ بھگ دس منٹ میں طے کیا۔ سڑک سے قدرے ہٹ کر واقع یہ قصبہ نسبتاً چھوٹا تھا۔ سڑک کے کنارے کچھ دکانیں موجود تھیں۔ لیکن اس وقت سب بند دکھائی دیں۔
دیہاتیوں کے بیان کے عین مطابق ننھیرا قصبے سے نکلتے ہی سڑک ایک نیم پختہ راستے کی شکل اختیار کر گئی اور پھر ایک نہر اور اس کے دوسری طرح گھنا جنگل میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ چاندنی ابھی تک راستہ دکھا رہی تھی۔ لیکن میں نے جیپ کی ہیڈ لائٹس بند نہیں کیں۔ البتہ میں پوری طرح محتاط ہو چکا تھا۔ صرف بیل گاڑیوں اورگھوڑا گاڑیوں کے لیے موزوں راستے پر آگے بڑھتے ہوئے مجھے اپنے بائیں طرف سڑک کنارے شاید چند سو گھروں پر مشتمل ایک گاؤں نظر آیا۔ جو یقیناً گردیال پور ہی رہا ہوگا۔ رات دوسرے پہرمیں آگے بڑھ رہی تھی۔ اس لیے اس وقت وہاں کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیا۔
جوہڑ کی طرف جانے والا کچا راستہ آتے ہی میں نے جیپ کی ہیڈ لائٹس بند کر دیں۔ ابتدا میں سب کچھ تاریکی میں ڈوبا محسوس ہوا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ میری آنکھیں چاندنی سے ہم آہنگ ہو گئیں۔ میں نے جیپ کی رفتار ہلکی کر دی تھی۔ اس کے باوجود انجن کی آواز رات کے سناٹے میں گونجتی محسوس ہو رہی تھی۔
مجھے راستے کے خد و خال تو دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن دائیں طرف چلتا جنگل مہیب سیاہ ہیولوں کا مجموعہ نظر آرہا تھا۔ مجھے دائیں طرف جنگل میں داخل ہونے والا کچا راستہ اور چند ہی گز آگے واقع پل بمشکل دکھائی دیا۔
میں اس تمام صورتِ حال کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ لیکن جیپ پل کی طرف موڑتے ہوئے میرا دل بری طرح دھڑکا۔
یہ گھنا جنگل میرے لیے بالکل انجانا ہے، جہاں کسی بھی قدم پر موت کے ہرکارے میرے منتظر ہو سکتے ہیں۔ وہ یقیناً بہت پہلے مجھے دیکھ لیں گے اور بلا چوں چرا گولیوں کی بوچھاڑ کر کے مجھے موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ وہ اتنی رات گئے جنگل میں بے دریغ گھسنے والے کو اپنا دوست تو ہرگز نہیں سمجھیں گے۔
جنگل میں داخل ہوتے ہی اندھیرا اچانک بہت گہرا ہوگیا۔ درختوں سے چھن چھن کر آنے والی چاندنی میں راستے کا خاکہ تو دکھائی دے رہا تھا۔ راستے سے ہٹ کر چند فٹ کے فاصلے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جیپ رینگنے کے انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ اس دوران میں ریوالور میری گود میں تھا اور میری آنکھیں آس پاس کا گہری نظروں سے جائزہ لے رہی تھیں۔ مجھے فراہم شدہ معلومات کے مطابق اس راستے پر دو فرلانگ بعد دائیں طرف ڈاک بنگلا آنے والا تھا۔ اندازاً ایک فرلانگ آگے بڑھنے کے بعد ہی میں نے جیپ کی رفتار مزید کم کر دی اور اپنی نظریں دائیں طرف جما دیں۔ مجھے لگا کہ سو گز آگے درخت اچانک پیچھے ہٹتے ہوئے غائب ہو رہے ہیں اور کھلے میدان جیسی جگہ سامنے آرہی ہے۔
میں نے فوراً جیپ دائیں طرف درختوں کے ایک جھنڈ کے درمیان گھمائی اور انجن بند کر دیا۔ اپنا ریوالور دائیں ہاتھ میں تھامتے ہوئے نپے تلے قدموں سے کھلے حصے کی طرف بڑھنے لگا۔ میں کچے راستے کے کنارے درختوں کے تاریک سائے میں رہتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ تھوڑا فاصلہ طے کرتے ہی چاندنی نے ایک بڑی سی عمارت کے خد و خال واضح کر دیئے۔ میں نے اپنا ہیجان کم کرنے کے لیے ایک گہرا سانس لیا۔
اس دوران میں ہر قدم کے ساتھ دعا ئیں بھی کر رہا تھا کہ میں نے اپنا دماغ لڑانے کے بعد جو اندازہ قائم کیا تھا، وہ درست ثابت ہو، کہ یہ ڈاک بنگلا، دراصل ڈاکو بنگلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ورنہ میری مہم بے حد کٹھن ہو جائے گی اور امر دیپ اور مانو کی بازیابی کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔
کھلی جگہ کے کنارے درختوں کی آخری قطاروں کے نیچے چھپ کر میں نے ڈاک بنگلے کا گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ میری آنکھیں عمارت میں روشنی کی کوئی جھلک تلاش کر رہی تھیں، جو وہاں انسانوں کی موجودگی کی علامت ہوتی۔ لیکن میری یہ کوشش ناکام رہی۔ تاہم اتنی جلدی مایوس ہونا میری فطرت کے خلاف تھا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More