سدھارتھ شری واستو
بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی نے برطانوی امداد کی خطیر رقم آنجہانی گجراتی رہنما سردار پٹیل کے مجسمہ پر پھونک ڈالی۔ جبکہ بھارت کو یہ امداد گجرات کے قبائل کی پسماندگی کو دور کرنے، خواتین کو بااختیار بنانے، سولر پینلوں کی تنصیب، تحقیقی کاموں کے فروغ اور علاقائی بنیادوں پر معیار تعلیم بہتر بنانے کیلئے دی گئی تھی۔ لیکن بدعنوان مودی نے غریبوں کے نام پر لی گئی امداد کو الیکشن مہم کے طور پر استعمال کیا اور ہندو ووٹ پکا کرنے کیلئے گجراتی رہنما سردار پٹیل کا مجسمہ کھڑا کر دیا۔ برطانوی میڈیا نے سردار پٹیل کا مجسمہ بنانے پر مودی سے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے اور تھریسا مے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی حکومت کو دی جانے والی امداد میں خورد برد پر سخت ایکشن لیں، کیونکہ ایک ارب سترہ کروڑ پائونڈز کی خطیر امداد میں سے مودی حکومت نے 330 ملین پائونڈز یعنی 33 کروڑ برطانوی پاؤنڈز ہندو رہنما سردار پٹیل کا مجسمہ بنانے پر لگا دیئے۔ ادھر بھارتی میڈیا نے سردار پٹیل کے مجسمہ کی ایستادگی پر مودی حکومت کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں۔ لیکن برطانوی میڈیا نے یہ بات واضح کرکے بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ سردار پٹیل کا مجسمہ دراصل برطانوی امداد کی رقم سے بنایا گیا ہے۔ سردار پٹیل کے مجسمہ کی تعمیر پر مقامی گجراتی میڈیا نے بتایا ہے کہ مسٹر پٹیل کے مجسمہ کی بناوٹ اور تعمیر کیلئے گجرات حکومت نے 80 دیہات کو یہاں سے اُٹھا ڈالا تھا اور 20 ہزار سے زائد بھارتی قبائلی عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، جس پر ریاستی حکومت کیخلاف عوام نے شدید احتجاج کیا تھا۔ لیکن مودی سرکار اس پروگرام سے ٹس سے مس نہیں ہوئی اور ایک آنجہانی ہندو رہنما کے مجسمہ کیلئے ہزاروں بھارتیوں کے گھر اجاڑ دیئے گئے۔ واضح رہے کہ سردار پٹیل بھارت کے پہلے وزیر داخلہ تھے اور بھارتی ہندو جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ بھارت کی تحریک آزادی کے ایک عظیم رہنما تھے۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں بھارت کو برطانوی حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امداد کا مکمل جائزہ یا جائے اور بھارت کو مستقبل میں ایسی کسی بھی امداد کی فراہمی سے روکا جائے۔ ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمان پیٹر بون نے بھی ایک بیان میں بھارتی حکومت کی چالاکیوں اور برطانوی امداد کے غلط استعمال پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ پیٹر بون نے بھارتی حکومت کو ’’پاگل پن کا شکار‘‘ اور ’’نان سینس‘‘ قرار دیا۔ برطانوی دارالعوام کے کئی اراکین نے بھارتی حکومت کو نالائق ٹھہرایا ہے اور تھریسا مے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی ٹیکس گزاروں کی رقوم کو بھارت کیلئے امداد میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ وہاں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ ڈیلی ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سردار پٹیل کا مہنگا ترین مجسمہ بنانا بھارتی حکومت برداشت کرسکتی ہے لیکن اس کی مالی حیثیت یہ ہے کہ وہ امداد پر نگاہیں رکھتی ہے۔ برطانوی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ برطانوی امداد کی ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز کی امداد کو خواتین کی مالی حالت بہتر بنانے، سولر لائٹس پینلز کی تنصیب، کم کاربن والی ٹرانسپورٹ کے فروغ اور تعلیم کی مدات میں رقوم ادا کی گئی تھی لیکن بھارتی حکومت نے اس رقم کے نصف حصہ سے دریائے نربدا پر مجسمہ بنا دیا۔ برطانو ی میڈیا نے بتایا ہے کہ کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس سلسلہ میں بھارت حکومت سے امداد کی رقم کا مکمل آڈٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی حکومت کیلئے کام کرنے والے سابق انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سکریٹری اینڈریو مچل نے تسلیم کیا ہے کہ بھارت کو دی گئی امداد کیخلاف عوامی رائے منقسم ہے اور 2015ء میں برطانوی حکومت نے اندرونی عوامی اور سیاسی دبائو کے نتیجہ میں بھارت کو امداد کی فراہمی بند کردی تھی، لیکن اگلے برس ہی سے مودی سرکار کی اپیلیں شروع ہوگئیں، جس کے بعد امداد بحال کی گئی اور 2017ء میں بھارت کو 92 ملین پائونڈز کی رقم بطور امداد فراہم کی گئی۔ ڈیلی میل آن لائن کے مطابق بھارتی حکومت سے اس بات کا سوال کیاجانا چاہئے کہ اس نے ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز کی امدادی رقم میں سے تینتیس کروڑ پائونڈز کی خطیر رقم کیوں ایک سیاسی رہنما کی مجسمہ سازی پر خرچ کی حالانکہ اس نے رقم کو بھارتی عوام کی فلاح وبہبود اور تعلیمی مقاصد کیلئے حاصل کیا تھا۔ برطانوی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے برطانوی امداد کو استعمال کیا جو قابل مذمت ہے۔ ڈیلی ایکسپریس نے بتایا ہے کہ سردار پٹیل کا مجسمہ امریکی مجسمہ آزادی سے دوگنا اونچا اور بڑا ہے اور گجرات کے معروف دریائے نربدا کے کنارے ایستادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں مقامی تجزیہ نگاروں نے بھی انکشاف کیا ہے کہ مودی کی جانب سے سردار پٹیل کا مجسمہ بنانے کا پلان انتخابی کامیابی سے منسلک ہے، مجسمہ ان کی آبائی ریاست گجرات میں بطور خاص بنایاگیا ہے، جس کیلئے مودی نے 2004ء میں ہی اقتدار سنبھالنے کے بعد کام شروع کردیا تھا۔ گجراتی جریدے گجرات سماچار نے بتایا ہے کہ مودی نے اس مجسمہ کی تعمیر کیلئے اپنی وزارت علیا کے دور میں ہی کمیشن بنا دیا تھا۔ب رطانوی جریدے ڈیلی مرر نے بتایا ہے کہ 2012ء میں برطانوی حکومت کی جانب سے بھارت کو 300 ملین پائونڈز کی رقم بطور امداد ادا کی گئی، جبکہ 2013 میں برطانوی حکومت نے نئی دہلی کو 268 ملین پائونڈز کی رقم بھیجی۔ 2014 میں 278 ملین پائونڈز کی امداد بھارتی حکومت کے اکائونٹس میں بھیجی گئی اور2015 میں برطانوی امداد کی رقم 185 ملین پائونڈز تک جا پہنچی، لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے بھیجی جانے والی رقم جیسے جیسے بھارتی اکائونٹس میں پہنچتی رہی ویسے ویسے بھارتی حکومت کی جانب سے سردار پٹیل کے مجسمہ کی تعمیر کا کام شروع اور تیز کیا گیا، جس پر برطانوی رائے عامہ اور میڈیا میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post