عمران خان
افغانستان سے بھارت کے نام پر امپورٹ ہونے والا سامان پاکستان میں اسمگل کیا جانے لگا ہے۔ کسٹم انٹیلی جنس کی حالیہ کارروائی میں افغانستان سے واہگہ کیلئے کلیئر ہونے والی کھیپ اندرون سندھ سے پکڑی گئی۔ ذرائع کے مطابق بھارت جانے والے سامان کی پاکستان میں ڈمپنگ کے انکشاف پر کسٹم انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ حساس اداروں کی جانب سے بھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں، تاکہ ان عناصر اور نیٹ ورک کا سراغ لگایا جاسکے، کیونکہ حساس اور خطرناک سامان بھی افغانستان سے بھارت اور بھارت سے افغانستان ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے کیلئے پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ سے اسمگل کیا جاسکتا ہے۔ اس کارروائی کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ بعض بااثر شخصیات نے کھیپ پکڑے جانے کے فوری بعد کسٹم انٹیلی جنس کی متعلقہ ٹیم کے انچارج پر کھیپ کو گاڑیوں سمیت چھوڑنے کیلئے دبائو ڈالا تھا جس کے بعد کسٹم کے اعلیٰ حکام سے بھی سفارش کروائی گئی۔ ذرائع کے بقول مذکورہ کنسائنمنٹ کو اندرون سندھ میں حیدر آباد کے قریب کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم نے دوران چیکنگ روکا اور ڈرائیور سمیت کھیپ کے ساتھ موجود افراد سے دستاویزات طلب کیں، جس پر کسٹم حکام کو جو کاغذات دکھائے گئے ان کے مطابق یہ کھیپ افغانستان سے بھارت کیلئے ایکسپورٹ کی جا رہی تھی، جسے ڈرائی پورٹ پر ٹرانزٹ ٹریڈ کے کسٹم حکام کی جانب نے کلیئر کیا تھا۔ اس کلیئرنس کے بعد کنسائنمنٹ نے لاہور میں واہگہ بارڈر کے راستے بھارت جانا تھا۔
ذرائع کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم جب اس کھیپ کو کلکٹوریٹ حیدر آباد آفس میں لے کر آئی تو جانچ پڑتال کے دوران اس میں کروڑوں روپے مالیت کے خشک میوہ جات اور بعض دیگر اشیا بر آمد ہوئیں۔ اس ضمن میں سپرٹنڈنٹ کسٹم انٹیلی جنس حیدر آباد طارق رفیق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغانستان سے بھارت کیلئے جانے والی کنسائمنٹ حیدر آباد کے قریب سے پکڑی تو گئی ہے، تاہم فی الوقت اس واقعہ پر مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے اور ابتدائی تحقیقات میں کھیپ کی کلیئرنس کی دستاویزات متعلقہ کسٹم حکام کو تصدیق کیلئے ارسال کی جاچکی ہیں اور جواب آنے پر ہی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔
کسٹم ذرائع کے بقول ڈائریکٹو ریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان کو بہت سی رعایات اور سہولیات حاصل ہیں۔ کراچی کی بندرگاہوں پر افغانستان کیلئے دنیا بھر سے آنے والا سامان بعد ازاں ٹرکوں کے ذریعے افغانستان منتقل کیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر افغانستان کے سینکڑوں تاجروں کا سامان اسی طرح سے دنیا بھر سے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آتا ہے اور افغانستان سے دنیا بھر کو ہونے والی ایکسپورٹ بھی اسی راستے سے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ہوتی ہے جسے کراچی کی بندرگاہوں سے ٹرانسشپمنٹ پرمٹ پر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تاہم افغانستان سے بھارت اور بھارت سے افغانستان کے درمیان پاکستان کے زمینی راستے سے ہونے والی امپورٹ اور ایکسپورٹ انتہائی محدود پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس کیلئے پاکستان کسٹم کے ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب سے انتہائی سخت اسکروٹنی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود محدود پیمانے پر ہونے والی تجارت میں سے بھی اسمگلنگ ہونا خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے، جس سے ایک جانب قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان ہو رہا ہے اور دوسری جانب اس روٹ سے خطرناک قسم کا سامان بھی پاکستان میں ڈمپ ہونے کا اندیشہ ہے۔
ذرائع کے بقول افغانستان اور بھارت کو تجارت کی راہداری کا معاملہ ہمیشہ سے ہی متنازع رہا ہے اور کبھی یہ روٹ مکمل بند کردیا جاتا ہے اور کبھی محدود پیمانے پر تجارت کی اجازت دی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت اسی راستے سے چھالیہ کی اسمگلنگ بھی عروج پر ہے، کیونکہ بھارت سے افغانستان آنے والی چھالیہ کی بھاری مقدار اسمگل کرکے کراچی سمیت ملک بھر میں سپلائی کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق عمومی طور پر افغانستان میں چھالیہ کی امپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں پر کھپت ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے تاہم جب سے پاکستان میں مضر صحت چھالیہ کی امپورٹ پر سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سختی کی گئی ہے اس وقت سے افغانستان کیلئے چھالیہ کی سپلائی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے اور یہ ساری چھالیہ پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔
ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس وقت کسٹم کے مختلف شعبوں کی خامیوں اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ پاکستان کیلئے سالانہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری کا ذریعہ بن چکا ہے، جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر درجنوں کنسائنمنٹس ٹرانسشپمنٹ پرمٹس لے کر افغانستان اور بھارت کیلئے روانہ تو ہوتی ہیں تاہم اپنی منزل مقصود پر جانے کے بجائے ان میں سے سامان چوری کرکے مقامی مارکیٹوں اور گوداموں میں بھر دیا جاتا ہے۔ دستاویزات کے مطابق اس پر خود ڈائریکٹو ریٹ جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب سے بھی نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ تحریری طور پر چیف کلکٹر سائوتھ، چیف کلکٹر نارتھ اور چیف کلکٹر سینٹرل کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل کسٹم انٹیلی جنس کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر سخت اسکروٹنی اور مانیٹرنگ کی ضرورت ہے جس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کیلئے ’’الرٹ ‘‘ لیٹرز تک جاری کیا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں موقف کیلئے جب ’’امت‘‘ کی جانب سے ڈائریکٹر ٹرانزٹ ٹریڈ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو کسٹم ہائوس میں موجود ان کے اسٹاف کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر اور ڈی جی ان دنوں مصروفیت کے باعث نہیں مل سکتے۔
٭٭٭٭٭
Next Post