مرزا عبدالقدوس
آسیہ ملعونہ کیخلاف توہین شان رسالت کیس کے مدعی قاری محمد سالم کو سماعت اور فیصلے کے وقت سپریم کورٹ کے اندر داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا، جس پر انہیں سخت تحفظات ہیں۔ قاری محمد سالم کا کہنا ہے کہ ’’چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس میں جے آئی ٹی بنادیں یا اوپن کورٹ میں اس کیس کی خود نئے سرے سے سماعت کریں، اگر ملعونہ آسیہ پر جرم ثابت نہ ہو تو بے شک مجھے پھانسی لگادیں، میں اس کے لئے تیار ہوں۔ شہادتوں کے لئے چونکہ دو گواہوں کی ضرورت تھی، اس لئے دو پیش ہوئے۔ اگر عدالت چاہے تو تمام گواہاں بھی پیش ہوں گے اور کھیت کا مالک اور پنچایت کے درجنوں افراد بھی پیش ہوں گے۔ اوپن کورٹ میں بھی دیگر تمام نکات کا جواب دینے کو تیار ہیں۔ لیکن اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ میں جو اس کیس کا مدعی ہوں۔ مجھے اس کیس کی سماعت اور فیصلے کے دونوں دن سپریم کورٹ کی عمارت میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اس عمل کو میں کیا کہوں کہ کیس کا مدعی سماعت کے اندر عدالت میں نہیں آسکتا اور نہ فیصلے کے دن عدالت میں پیش ہو سکتا ہے‘‘۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ملعونہ آسیہ مسیح کے خلاف کیس کے مدعی قاری محمد سالم اور اس کیس کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’ہم نے پہلے بھی قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ اب بھی قانونی محاذ پر اس کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔ نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ہماری نہ کسی سے ذاتی مخالفت ہے اور نہ کسی سے دشمنی ہے۔ اگر نو سال سے عدالتوں میں آ جا رہے ہیں تو فقط نبی کریمؐ کی حرمت کی خاطر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ قانونی میدان میں یہ آخری موقع ہے۔ اس کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ لیکن ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ جو لوگ یا جماعتیں کسی دوسرے راستے پر گامزن ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
اس کیس میں مدعی کے وکیل سینئر قانون دان غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے آسیہ کی بریت کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسری درخواست بھی جمع کرائی ہے کہ چونکہ ملزمہ کے بیرون ملک فرار کا اندیشہ ہے، اس لئے اس کیس کی جلد از جلد سماعت کی جائے۔ جمعرات کو میں نے اپیل اور درخواست سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمع کرائی تھی۔ ایسے کیسز میں چونکہ عموماً ایسے ہی ہوتا ہے، اس لئے امکان تھا کہ اگلے روز جمعہ کو سماعت ہوگی۔ لیکن گزشتہ روز (پیر کو) بھی سماعت نہیں ہوسکی۔ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کب اس کیس کی سماعت کرے‘‘۔ ایک سوال پر غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’نظر ثانی اپیل میں آپشن محدود ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے وہ تمام نکات اٹھائے ہیں، جن کی بنیاد پر اسے بری کیا گیا ہے۔ عدالت میں دو گواہان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مزید گواہوں کو بھی عدالت طلب کرتی ہے تو وہ پہلے بھی پیش ہونے کو تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں۔ ہمیں مجرمہ کے بیرون ملک فرار کا خدشہ ہے۔ اسی لئے اس کیس کی جلد سماعت اور اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی عدالت سے درخواست کی ہے۔ جبکہ اس وقت بھی مختلف افواہیں زیر گردش ہیں کہ وہ کینیڈا یا برطانیہ جاچکی ہے۔ بعض اطلاعات ہیں کہ ملتان جیل میں ہے۔ جب کیس کی سماعت ہوگی تو ہم اس حوالے سے عدالت سے استدعا کریں گے اور عدالت دوسرے فریق سے پوچھے گی کہ ملعونہ آسیہ کہاں ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’آسیہ چونکہ جیل میں ہے، اس لئے اس کا نادرا آفس جانا یا نادرا کا جیل میں جاکر اس کا پاسپورٹ بنانا بہت مشکل امر ہے۔ اس لئے اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہماری ساری توجہ کیس پر ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مجھ سے کسی دوسرے وکیل، جماعت یا شخصیت نے اس کیس کے بارے میں رابطہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ختم المرسلینؐ کی رضا اور ان ہی سے صلہ کے طلب گار ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ اس اہم مقدمہ کے مدعی قاری محمد سالم اس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر دو دفعہ عدالت عظمیٰ آئے۔ پہلی دفعہ جب آٹھ اکتوبر کو کیس کی مختصر سماعت ہوئی اور فیصلہ محفوظ ہوگیا۔ اور دوسرے دن جب اکتیس اکتوبر کو محفوظ فیصلہ سنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں مواقع پر اس اہم کیس کے اکلوتے مدعی کو سپریم کورٹ کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا، جس پر قاری سالم کو سخت تحفظات ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے قاری محمد سالم کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم نے قانونی راستہ اختیار کیا اور اسی پر چلیں گے۔ اب ہم نے نظر ثانی اپیل دائر کی ہے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ اس کی سزا بحال ہوگی۔ عدالت نے جن نکات کی بنیاد پر فیصلہ دیا، کسی ایک نکتے میں بھی ملعونہ پر لگائے گئے الزام کی تردید نہیں ہوتی۔ اگر عدالت کو موقع پر موجود 25/30 تمام عورتیں اور کھیت کا مالک بطور گواہ ضرورت ہیں تو وہ پیش ہونے کو تیار ہیں۔ پنچایت کے افراد بھی اس کے اعتراف جرم کی گواہی دینے کو تیار ہیں۔ محترم چیف جسٹس اس کیس کی خود سماعت کریں یا جے آئی ٹی بنا کر انکوائری کرائیں۔ اگر اس ملعونہ پر جرم ثابت نہ ہو تو انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ قاری محمد سالم نے کہا کہ ’’ہم نے نو سال بلاوجہ اور بے مقصد جدوجہد نہیں کی۔ ہمارا یا پورے گاؤں کے کسی شخص کا آسیہ یا اس کے خاندان سے کوئی جھگڑا یا لین دین کا تنازعہ نہیں تھا اور نہ ہے۔ لیکن یہ گستاخ ہماری مجرم ہے اور اس کو سزا ملنی چاہئے۔ قاری محمد سالم نے کہا کہ ’’مجھے سپریم کورٹ میں نہ جانے دینا، دونوں مواقع پر مجھے اور میرے وکیل کو کیس کی سماعت اور فیصلے کے دن کے بارے میں بر وقت آگاہ نہ کرنا، بدنیتی پر مبنی ہے۔ ہم سب کو ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ نبی کریمؐ بھی وہاں تشریف فرما ہوں گے۔ وہاں کون، کیا جواب دے گا۔ کس حالت میں پیش ہوگا۔ میرے ساتھ ساتھ سب کیلئے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے۔ میڈیا کے سامنے اوپن ٹرائل چیف جسٹس خود کریں اور ہمارا موقف سنیں۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے اندر ہمارے وکیل محترم غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ کی پوری بات نہیں سنی گئی۔ جب باہر آکر انہوں نے میڈیا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا تو اسے میڈیا یا پر نشر ہونے سے روک دیا گیا۔ یہ بدنیتی نہیں تو اور کیا اسے کہا جائے؟۔ آسیہ ملعونہ نے ایک دفعہ نہیں مجسٹریٹ اور پنچایت کے سامنے بھی اعتراف جرم کیا۔ اب اگر کوئی نہ مانوں کی رٹ لگا لے اور وہ صاحب اختیار بھی ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہم قانون کے راستے پر چل رہے ہیں اور یہی راستہ اختیار کریں گے۔ باقی جو اللہ کی مرضی، وہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭