امریکی وزیر خارجہ افغانستان سے محفوظ انخلا کے لئے پاکستان آئیں

0

وجیہ احمد صدیقی
امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز مسلسل پاکستان کے چکر لگا رہی ہیں۔ ان کے ایجنڈے کے حوالے سے عسکری اور خارجہ امور کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ اب افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ چاہتا ہے اور پاکستان کی مدد کے بغیر اس کی باعزت واپسی ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی یہ بھی خواہش ہے کہ دنیا کہے کہ امریکہ افغانستان سے کامیاب ہوکر جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول ایلس ویلز اسی مقصد کے تحت آئی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس کیلئے محفوظ راستہ پاکستان ہی مہیا کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان کو اقتصادی امداد کا لالچ بھی دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان پہنچتے ہی ایلس ویلز نے وزیر خزانہ اسد عمر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے فوراً بعد امریکی نائب وزیر خارجہ کی آمد خاصی معنی خیز ہے۔ مولانا سمیع الحق کو جس نے بھی شہید کیا، اس کا مقصد یقیناً یہ تھا کہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان ایک معتبر رابطہ ختم ہوجائے اور وہ عناصر کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور روس کے روابط سے امریکہ پریشان ہے۔ کیونکہ اب افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں سرگرم ممالک میں امریکہ اور بھارت شامل نہیں ہیں۔ انہیں 9 نومبرکو ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی رسمی طور پر دعوت تو دی گئی ہے، لیکن کلیدی کردار افغانستان کے پڑوسی ممالک کا ہی ہے۔ روس کی جانب سے قیام امن کی کوششوں پر امریکی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ روس دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور ماسکو اپنا سوویت یونین والا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے بقول امریکہ سترہ سال سے افغانستان میں ہے اور اس دوران ایک دن بھی امن کی حالت میں نہیں گزرا۔ اب امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے پاکستان راہ ہموار کرے۔ روسی حکومت نے ماسکو امن مذاکرات کے مشاہدے کیلئے پاکستان، ایران، چین اور سوویت یونین کی پانچ ریاستوں قازقستان،کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے علاوہ امریکہ اور بھارت کو بھی دعوت دی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ کو ان کوششوں پر تشویش ہے، کیونکہ اگر روس اور چین کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک روس اور چین کی کوششوں کی تائید کرتے ہیں تو اس خطے میں امریکہ اور بھارت کا کردار ہی ختم ہوجائے گا۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ کی جانب سے طالبان سے رابطے کی کوششیں صرف ایک چال ہے، جس میں وہ مذاکرات کی پیشکش کرکے طالبان کو ان مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا دے گا۔ جبکہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ واشنگٹن مذاکرات میں مخلص ہے اور وہ واقعی افغان جنگ کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کا پہلا مطالبہ امریکی افواج کے انخلا کا ہے۔ تاہم یہ مطالبہ امریکہ کبھی پورا نہیں کرے گا کیونکہ وہ خطے میں موجود رہ کر پاکستان، ایران، روس اور چین پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔ افغان جہاد میں شریک رہنے والے ایک عسکری تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ طاقتور ممالک کو سمجھنے کیلئے ان کی تحریری پالیسی کو دیکھنا ہوتا ہے اور اس پالیسی میں وہ بھارت کو اس خطے میں کردار دینا چاہتے ہیں۔ چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ امریکہ اس پیشکش کے بعد مذاکرات کرے گا اور پھر یہاں سے نکل جائے گا۔ امریکہ اب اس خطے میں طویل عرصے تک قیام کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے ایلس ویلز بھی پاکستان کو استعمال کرنے کیلئے آئی ہیں اور اس کیلئے وہ اقتصادی تعاون کا لالچ بھی دے سکتی ہیں۔ جبکہ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج اب افغانستان کے معاملے میں امریکہ کی ہدایات کے مطابق اپنی حکمت عملی نہیں بنائے گی۔ ایلس ویلز کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کو روس کی کوششوں کی حمایت سے روکنا ہے۔ واضح رہے کہ روس نے افغانستان میں جاری جنگ کے سیاسی حل کیلئے رواں ہفتے عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے طالبان اور افغان حکومت کو شرکت کی دعوت دے دی ہے۔ روسی وزارت خارجہ 9 نومبر کو ہونے والے عالمی مذاکرات میں افغانستان اور طالبان کے نمائندوں کی میزبانی کرے گی۔ روس کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور طالبان نے کانفرنس میں اپنے وفود بھیجنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ یہ پہلا موقع ہوگا کہ دوحہ میں قائم طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کا وفد اس طرح کے اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شرکت کرے گا۔ ادھر افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی نے کہا کہ وہ کانفرنس کے حوالے سے ابھی روسی حکام سے بات چیت کر رہے ہیں اور ابھی تک اس سلسلے میں کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ جبکہ روس نے کہا ہے کہ اس نے کانفرنس میں امریکہ، پاکستان، بھارت، ایران اور چین سمیت سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہنے والی وسط ایشیا کی پانچ ریاستوں کو بھی شرکت کی دعوت دے دی ہے۔ ماسکو کانفرنس میں اگر اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہوجائے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود منتخب کرنے کا موقع دے دیا جائے، تو یہ بہت بڑی پیش رفت ہوگی اور امریکہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان سے جانا ہوگا۔ اس لیے امریکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی اور پر ڈال کر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More