محمد زبیر خان
تحریک لبیک کیخلاف کریک ڈائون پر پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیاں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سمیت صوبائی کابینہ کے بیشتر ارکان ٹی ایل پی سے کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد کے حامی ہیں اور کسی قسم کی کارروائی کے حق میں نہیں ہیں۔ جبکہ وفاقی حکومت ہر صورت میں آپریشن کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب حکومت نے اتوار اور سوموار کی درمیانی شب شروع کیا جانے والا کریک ڈائون روک کر ایک بار پھر تحریک لبیک کو معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی کرادی ہے۔ اور یہ کہ گرفتار کئے گئے کارکنوں کو رہا بھی کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کو یہ یقین دہانی اس لئے کرانی پڑی کہ تحریک لبیک کے قائد علامہ خادم حسین رضوی نے سخت احتجاج کا انتباہ دیا تھا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق پنجاب میں تحریک لبیک کے خلاف اتوار کی رات سے شروع کیا جانے والا کریک ڈائون غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ تحریک لبیک کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کیا گیا، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے ایک وفد نے پنجاب حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کی ہے، جس کے بعد انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی اپنے ممکنہ احتجاج کا اعلان نہ کریں تو پنجاب حکومت کریک ڈائون روک کر گرفتار کارکنان کو رہا کردے گی اور معاہدے پر مکمل عملدرآمدکیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کے وفد نے حکومتی یقین دہانی پر علامہ خادم حسین رضوی کی جانب سے تحریک کا اعلان نہ کرنے کا یقین دلایا تھا۔ تحریک لبیک کے وفد اور پنجاب حکومت کی ٹیم کے درمیان ملاقات کے بعد ہی پورے صوبے میں ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کریک ڈائون روک دیا جائے۔ واضح رہے کہ چند دن قبل جب حکومت کی جانب سے اطلاعات دی جا رہی تھیں کہ تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے تو اس وقت امت نے تحریک لبیک کے مرکزی قائدین سے رابطہ کرکے موقف لیا تھا۔ جس میں تحریک لبیک کے تین مرکزی قائدین نے کسی قسم کے آپریشن اور اپنے کارکنان کی گرفتاریوں سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور کریک ڈائون کو مسترد کر دیا تھا۔ ذرائع کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ پنجاب حکومت تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھی اور صوبائی حکومت نے یقین دلایا تھا کہ کوئی کریک ڈائون نہیں نہیں ہوگا۔ تاہم تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا گیا جو ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایات پر کیا گیا تھا اور اس آپریشن سے پنجاب حکومت کے کئی وزیر اور پولیس افسران بھی بے خبر تھے۔ اس آپریشن کو شروع ہوئے تقریباً ایک دن اور رات کا کچھ حصہ ہی گزرا تھا کہ جب تحریک لبیک کے قائد علامہ خادم حسین رضوی سے سخت ترین رد عمل اور تحریک کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی خبر ملتے ہی پنجاب حکومت حرکت میں آئی، اس نے تحریک لبیک سے رابطہ کرکے مہلت مانگی اور آپریشن کو رکوایا۔ نیز یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ تحریک لبیک سے کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو دو ٹوک بتا دیا ہے کہ تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈائون سے پنجاب بھر میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور صوبے کے مختلف علاقوں میں اس کا شدید ری ایکشن ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کو اطلاعات مل گئی تھیں کہ تحریک لبیک مختلف مدارس، خانقاہوں اور مساجد کے ذریعے عوام کی بڑی تعداد کو سڑکوں پر لے آئے گی اور صورت حال ممکنہ طور پر کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے وفاقی ذمہ داران کو یہ بھی بتایا کہ پنجاب کی انتظامیہ بڑے پیمانے پر صوبہ بھر میں ہونے والے مظاہروں سے اس وقت نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اس کے لئے اور وفاق کو اپنی پیرا ملٹری فورسز تعنیات کرنا پڑیں گی۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور صوبائی کابینہ کے ارکان کی اکثریت کسی قسم کی کارروائی کے حق میں نہیں اور انہوں نے اپنی متفقہ رائے وفاقی حکومت تک پہنچا دی ہے۔ دوسری جانب ذرائع کے بقول وفاقی حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ، صوبائی حکومت سے متفق نہیں اور وہ کریک ڈائون جاری رکھنے اور اس حوالے سے رپورٹوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تادم تحریر پنجاب حکومت اور وفاق کے درمیان اختلافات موجود ہیں، تاہم کریک ڈائون فی الحال روک دیا گیا ہے اور گرفتار کارکنوں کی رہائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو تحریک لبیک کے ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز (منگل کو) شام تک اس کے کئی کارکناں رہا کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ شیخو پورہ سے بھی کارکنان کی بڑی تعداد رہا کی گئی ہے۔ تحریک لبیک کے ترجمان پیر اعجاز ہاشمی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوموار کی رات تحریک لبیک کے وفد نے پنجاب حکومت کے وفد سے ملاقات کی تھی۔ پنجاب حکومت کی قیادت صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کر رہے تھے اور اس میں اعلیٰ انتظامی عہدیداران موجود تھے، نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ تحریک لبیک کے خلاف آپریشن روک دیا جائے گا اور گرفتار لوگوں کو بھی رہا کردیا جائے گا۔ یہ اطلاعات بھی مل چکی ہیں کہ پنجاب سے تحریک کے کارکنان کو رہا کرنا شروع کر دیا گیا ہے اور باقی لوگ ایک دو دن میں رہا ہوجائیں گے۔ ایک سوال پر پیر اعجاز ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’’حکومت میں کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ فساد پیدا ہو اور کچھ وزیر امن نہیں چاہتے۔ مگر ہم ان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ حکومت اگر معاہدے سے فرار کی راہ اختیار کرے گی تو پھر نتائج کی ذمہ دار بھی خود ہوگی۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کس حد تک معاہدے پر عمل کرتی ہے‘‘۔
’’امت‘‘ نے صوبائی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت سے رابطہ کر کے موقف حاصل کرنا چاہا، مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭٭٭٭