اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
آغا مرزا تراب علی سمیت تمام مقتولوں کے بدن کی اینٹھن اور ایڑیوں کی رگڑ اور ہاتھوں کا تشنج زائل بھی نہ ہوا تھا کہ ساتوں لاشوں کے اوپری کپڑے، جوتیاں اور بدن کے زیور، انگوٹھیاں وغیرہ اتار لئے گئے اور انہیں اسلحہ کے ساتھ گٹھڑیوں میں لپیٹ کر گولا لاٹھی کی شکل دے دی گئی۔ اتنی ہی دیر میں دور آسمان پر کرگسوں کے بھورے کتھئی سائے لہراتے نظر آنے لگے تھے۔ کریم الدین نے کہا ’’کَسّی نکالو‘‘۔
یہ ہدایت سن کر ایک شخص نے اپنی گٹھری کھول کر سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی ایک کدال نہایت احتیاط اور احترام سے نکالی۔ باری باری تمام ٹھگوں نے جائے واردات سے کچھ نشیب میں ایک قبر نما گڑھے کو وسیع کرنا شروع کیا۔ گڑھا چونکہ پہلے ہی کھود لیا گیا تھا، اس لئے بمشکل نصف گھڑی میں قبر یا گڑھا اتنا وسیع اور گہرا تیار ہوگیا کہ ساتوں لاشیں اس میں ایک کے اوپر ایک ٹھونس دی گئیں۔ اس طرح کہ ایک کے پائوں پر دوسری کا سر رکھا گیا۔ ساتوں کو درگور کرنے کے بعد پہلے ہی جیسی پھرتی سے مزین برابر کر کے اس پر گھانس، چھوٹے پتھر، روڑے، سوکھی ہوئی کانٹے دار شاخیں اس طرح پھیلا دی گئیں کہ دیکھنے والے کو گمان بھی نہ ہو کہ یہاں کوئی مدفن ہے، اور کانٹے دار جھاڑیوں کے ڈر سے سیار اور بھیڑے بھی وہاں زمین کھودنے کی ہمت نہ کریں۔ کسی کو دھوکر سفید کپڑے میں دوبارہ نہایت احترام سے لپیٹا گیا۔ پھر سب نے مغرب کی طرف رخ کرکے با آواز بلند کہا ’’جے دیوی ماں کی‘‘ اور کسی کو بوسہ دے کر گٹھری میں واپس رکھ لیا۔
قافلے کے گھوڑے اور خچروں کا سامان اتار کر انہیں وہیں چھوڑ دیا گیا کہ جہاں چاہیں نکل جائیں یا بھیڑیوں اور گلداروں اور تیندوئوں کی غذا ب بنیں۔ ’’ مردہ‘‘ راہگیر کو ملا کر وہ نو ٹھگ تھے۔ لوٹ کا سامان اور اپنا سامان باآسانی اٹھا کر وہ بظاہر آہستہ لیکن درحقیقت تیز قدم چلتے ہوئے بہت جلد غائب ہو گئے۔
٭٭٭٭٭
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دیوی دیوتا، جن و پری، دیو اور دیونیاں، عفریت اور شیاطین، اسور اور راکشس ارض انسانی پر آزاد گھومتے تھے اور کبھی کبھی عام انسانوں کو نظر بھی آتے تھے۔ انہیں دیویوں میں ایک دیوی بھوانی بھی تھیں۔ اہل ارض پر ایک کٹھن وقت ایسا آیا جب ایک عظیم الجثہ عفریت کہیں سے پیدا ہوکر تمام ذی حیات اہل دنیا پر حاوی ہو گیا۔ انسانوں کے پیدا ہوتے ہی وہ انہیں کھا جاتا۔ کچھ ہی زمانہ گزرا تھا کہ دنیا میں انسانوں کی گنتی کم ہونے لگی اور جانور بڑھنے لگے۔ جانوروں کی افزائش سے دوسرا خطرہ پیدا ہوا کہ انسانوں کو عفریت الگ کھائے گا اور درندے ان کا خون الگ بہائیں گے۔ چند ہی مدت میں سنسان جگہیں، پھر دیہات، پھر بڑی بستیاں، اور پھر شہر، حتیٰ کہ راجائوں کے محل بھی شیروں، ببر شیروں، گلداروں، چیتوں، بھیڑیوں، سیاہ گوشوں، لکڑ بگھوں اور شغالوں سے بھر جائیں گے۔ لوگوں نے فوجوں اور گروہوں کی صورت میں عفریت کے قتل کو نکلنا شروع کیا۔ کئی جگہ تو ہاتھیوں، گینڈوں اور ارنے بھینسوں کے غول اس کام کے لئے مہیا کئے گئے۔ لیکن عفریت کو مارنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔ وہ قد میں اتنا بلند تھا کہ عمیق ترین سمندر بھی اس کی کمر تک نہ پہنچتا تھا۔ انسان ہو یا حیوان سبھی اس کے سامنے آتے ہی خوف سے بے ہوش ہو جاتے تھے اور پھر وہ عفریت انہیں باآسانی دبوچ کر اپنے منھ میں ڈال لیتا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ عفریت نہ تھا، راکشس تھا، اور اس کا نام رکت بیج تھا۔
جب سارے عالم میں تراہ تراہ مچ گئی تو دیوی بھوانی کو، جنہیں کالی ماں اور ماتا درگا بھی کہتے ہیں اہل ارض پر رحم آ ہی گیا۔ انہوں نے اپنی ہیرے جڑی ہوئی طلائی تلوار سے عفریت راکشس کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سر قلم ہونے پر خون کا فوارہ چھوٹا اور اس کی بوندیں زمین پر گریں تو ہر قطرے سے ایک عفریت پیدا ہوا جو ہوبہو اصل عفریت کی طرح تھا۔ اب تو بھوانی کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے تلوار کو دونوں ہاتھوں میں لے کر عفریتوں کا صفایا شروع کر دیا۔ لیکن مرنے والے ہر عفریت کے خون کے ہر قطرے سے ایک نیا عفریت فوراً پیدا ہو جاتا۔ سارا میدان عفریتوں کے جثے اور ان کی چنگھاڑ سے بھر گیا۔ مارتے مارتے اور کاٹتے کاٹتے بھوانی ماں کے ہاتھ شل ہو گئے اور وہ پسینے پسینے ہو گئیں۔ تب انہوں نے اپنے بازو پونچھے اور دونوں بازوئوں سے ایک ایک قطرہ پسینہ ارض مصاف پر ٹپکایا۔ پسینے کی بوندوں کا مٹی پر ٹپکنا تھا کہ گندھی ہوئی مٹی سے دو سورما پیدا ہوئے۔ بھوانی ماں نے اپنے زرد سفید دامن کا کنارہ پھاڑ کر دو لمبی دھجیاں نکالیں اور دونوں سورمائوں کو ایک ایک دھجی دے کر کہا: ’’ایک ایک کر کے ان نابکار عفریتوں کا گلا گھونٹ دو۔ خون ہر گز نہ بہے‘‘۔
جیالے سورمائوں نے تھوڑی ہی مدت میں سارے عفریتوں کا قلع قمع کر دیا۔ بھوانی نے خوش ہو کر ایک دھجی انہیں بخش دی اور کہا ’’آج سے تمہارا دھرم یہی ہے۔ اس دھجی سے انسانوں کا خون کرو۔ لیکن خون نہ بہے۔ تمہارے مارے ہوئوں کو میں کھا جایا کروں گی۔ لیکن مارنے کے بعد پلٹ کر نہ دیکھنا۔ تمہارا مارا ہوا کیونکہ میرے فرمان سے مرے گا، اس لئے مرنے کے بعد نہ وہ بھوت بنے گا اور نہ اس پر کوئی جانچ پڑتال ہوگی۔ اس کا دوبارہ جنم نہ ہو گا اور وہ سیدھا بیکنٹھ جائے گا۔ نرک کا منہ کبھو نہ دیکھے گا‘‘۔
ایک روایت یہ ہے کہ رکت بیج کو ماں نے خود اپنے انگوچھے سے گلا گھونٹ کر مارا تھا اور پھر وہی انگوچھا کاچنی قوم کے ایک ٹکڑ گدا کو بخش کر یہ بردان دیا تھا کہ لے، اس سے مسافروں کو مار کر اپنی روزی پیدا کر۔ لاشوں کو گاڑنا اور تیری اور تیرے قبیلے کی رکچھا کرنا ہمارا کام ہے۔
بھوانی نے کچھ شرائط اور کچھ مستثینات بھی مقرر کیں۔ مثلاً یہ کہ عورت کو نہ مارنا، اپنے اعزا میں سے کسی کو نہ مارنا، منفعت کی توقع نہ ہو تو ہر گز مت مارنا، ساتے کا دھیان رکھنا، وغیرہ، لیکن اصل حکم یہی دیا کہ اس دھجی (یا انگوچھے) یا اس طرح کے رومال سے گلا گھونٹ کر مارنا اور بعد مارنے کے پلٹ کر نہ دیکھنا۔ بھوانی کے یہ عقیدت مند سارے جہاں میں پھیل گئے اور بے فکری سے بنی نوع انسان کو شکار کرنے لگے۔ بھوانی ان کے مقتولوں کی لاشیں فوراً ہڑپ کر جاتی اور کسی کو پتہ نہ چلتا کہ آخر وہ شخص گیا کہاں اور اسے کیا ہو گیا تھا۔
ہزاروں سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن انسان بچہ بلا وجہ احمق نہیں کہلاتا۔ ایک بار ایک من چلے نے سوچا، ذرا پلٹ کر دیکھ لوں کہ ماں میرے شکار کو کیسے کھاتی ہے۔ پس اس نے راہ میں ایک راہگیر کو مارا اور بھاگ نکلا۔ لیکن بھاگتے بھاگتے اس نے پلٹ کر دیکھا۔ دیوی ماں نہایت ذوق و شوق سے اور نہایت تیزی سے لاش کو نگلتی جا رہی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ من چلے ٹھگ نے جب اپنا منہ پھیرا تو کیا دیکھا کہ دیوی اپنی اصل صورت میں موجود ہیں اور لاش کو اٹھا کر اپنی رتھ پر لاد رہی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ دیوی نے لاش کو اتنی آسانی سے اٹھا لیا، جیسے وہ خشک پتہ ہو، اور انہوں نے لاش کو غائب کر دیا۔
دیوی کی نظر اس دیکھنے والے گستاخ پر پڑی تو وہ غصے سے بپھر گئیں اور بولیں ’’اب مجھ کو لاش برداری سے، کہ میرا ذمہ تھا، کچھ کام نہیں۔ اب سے تم جانو اور لاشیں جانیں‘‘۔ یہ کہہ کر دیوی غائب ہو گئیں۔ تب سے لاچاری کے سبب کدال یعنی کَسّی بنوانا، اس سے مدفن کھودنا اور لاشوں کو گاڑنا ضرور پڑا۔
ایک روایت یہ ہے کہ گستاخ ٹھگ کی نالہ و زاری اور عفو خواہی کے سبب بھوانی کو رحم آ گیا۔ لہٰذا انہوں نے آئندہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے سے اگرچہ انکار کیا، لیکن اپنا ایک دانت توڑ کر انہوں نے زمین پر پھینک دیا اور کہا کہ اسے لے جا اور اس کی کدال بنا لے۔ اسے کَسّی کہہ کر پکاریو۔ جب تک تو کَسّی کی توقیر اور پرستش کرے گا، یہ تیرا ساتھ دے گی، تجھے راہ سجھائے گی، غلطیوں سے بچائے گی، گور گڑھا اس کے ذریعہ بہت جلد بن جایا کرے گا۔ اور کام ہو جانے کے بعد کسی کو کنویں میں پھینک دیا کیجو۔ پھر تو جب بھی کام اپنا کرنے کو، جسے جتائی پرجانا کہیں گے، اور گلا گھونٹنے کو بھوتی کہیں گے، گھر سے نکلے تو اسی کنویں پر جائیو اور میرا نام لے کر کَسّی کو بلائیو۔ کسی اپنے آپ اوپر آ جاوے گی۔
میجر جنرل ولیم ہنری سلیمن (Major-General William Henry Saleeman) جسے کمپنی کی دو بڑی خدمات (انسداد ٹھگی اور اودھ کی شاہی کے خلاف رپورٹ) کے صلے میں زندگی کے بالکل آخری وقتوں میں سر کا خطاب اور Knight Commander of the Bath کا تمغہ دیا گیا، اپنے وقائع میں لکھتا ہے کہ کئی ٹھگوں نے اس سے حلفیہ بیان کیا کہ انہوں نے اپنی آنکھ سے یہ منظر دیکھا ہے کہ ٹھگوں کے جمعدار نے کنویں پر جا کر اپنی کسی کو پکارا ہے اور وہ فوراً اپنے آپ سے اوپر آ گئی ہے۔ ایک نے تو یہاں تک بیان کیا کہ اگر کسی کنویں میں ایک سے زیادہ جمعداروں کی کسیاں ہوں تو پکارنے پر ہر ایک کی کَسّی الگ الگ بے خطا اوپر آجاتی ہے۔ (جاری ہے)