مشتبہ این جی اوز کی بحالی کیلئے پی پی کی بے تابی بڑھ گئی

0

اسلام آباد(امت نیوز)پاکستان میں کام کیلئے نا اہل قرار دی جانے والی مشتبہ این جی اوز کی بحالی کیلئے پی پی کی بے تابی بڑھتی جا رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی سربراہی میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ 2016کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عالمی غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے دے۔سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی بریفنگ کے دوران حکام کا یہ انکشاف بے سود ثابت ہوا کہ کام سے روکی جانے والی تنظیموں میں سے ایک ہم جنس پرستی کے فروغ کیلئے کام کر رہی تھی۔وفاقی حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ غیر ملکی سفیروں نے انٹرنیشنل این جی اوز کے معاملے پر وزیر اعظم کو خط تحریر کر کے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ 2016کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عالمی غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دیدے۔کمیٹی کے چیئرمین پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ عالمی غیر سرکاری تنظیموں کو کام سے روکنے اور ان پر پابندی لگانے کا مجاز ادارہ نہیں ہے ۔سپریم کورٹ 2016 کے ایک فیصلے میں واضح کر چکی ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی کابینہ ہی ایسے فیصلے کرنے کی مجاز ہے ۔اگر کسی وجہ سے ایسا فیصلہ کرنا پڑا تو مجاز اتھارٹی وزیر اقتصادی امور ڈویژن نہیں بلکہ وزیر داخلہ ہوگا، جب تک وفاقی حکومت حتمی فیصلہ نہ کرلے ، وزارت داخلہ ایسا فیصلہ نہیں کرسکتی ۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انٹرنیشنل این جی اوز کو کام سے روکے جانے کی وجوہات سے بھی آّگاہ نہیں کیا گیا ہے ۔فیصلے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان پر تنقید ہوئی بلکہ غیر ملکی سفرا وزیر اعظم کو خط لکھنے پر بھی مجبور ہو گئے ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ غیر ملکی سفیروں نے انٹرنیشنل این جی اوز کے معاملے پر وزیر اعظم کو خط تحریر کر کے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے ۔غیر ملکی سفیر پاکستان کو قوانین و قواعد کی تبدیلی پر مجبور نہیں کرسکتے۔یورپ بھر میں بے شمار مسلم این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔پاکستان میں غیر ملکی این جی اوز کو اپیل کا حق دیا گیا ہے ۔ یورپ میں ورک پرمٹ کی کوشش کرنے والوں کو اپیل کا حق نہیں دیا جاتا ۔کچھ جرمن انٹرنیشنل این جی اوز سماجی کام کرنے کے بجائے سیاسی ایجنڈے کےتحت کام کر رہی تھیں اور یہ این جی اوز جرمن سیاسی جماعتوں سے بھی وابستہ ہیں۔کچھ این جی اوز نقشے بنا رہی تھیں اور وہ سیکورٹی اداروں کے اندر جا رہی تھیں ۔میں مانتی ہوں کہ انہیں کام بند کرنے کے حکم کی وجوہات بتانی چاہئے تھی اس طرح زیادہ مسئلہ بھی نہ بنتا۔اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ محمد صدیق نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ 4برس پرانا معاملہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ اسےدہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردانہ واقعات سے منسلک کیا جائے ۔کچھ عالمی این جی اوز اپنے بیان کردہ مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کر رہی تھی ۔رجسٹریشن کیلئےاین جی اوز کی درخواستوں کا جائزہ لینے کمیٹی میں سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن،وزارت داخلہ ،خارجہ کے علاوہ آئی بی اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل تھے ۔اس دوران 74درخواستیں منظور اور72 مسترد کی گئیں ۔9این جی اوز نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ 18 نے درخواستیں دیدی ہیں جنہیں واپسی کا حکم دیا گیا ہے تاہم وہ 6ماہ بعد دوبارہ درخواست دینے کے اہل ہوں گی تاہم انہیں پینے کے صاف پانی، تعلیم اور صحت جیسے امور تک ہی محدود رہنا ہوگا تاہم ماضی میں ہم جنسی پرسی کے فروغ کیلئے ڈیٹا جمع کر رہے تھے ۔یہ طے پایا ہے کہ جرمن این جی اوز کے معاملے کو وزارت خارجہ دیکھے گی ۔اجلاس میں انٹرنیشنل این جی اوز کے نمائندوں خرم ہاشمی اور صبا گل خٹک بھی پیش ہوئے ۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو این جی اوز کو روکے جانے کی وجوہات سے آگاہ کرنے کی ہدایت بھی کی ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More