معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
شیخ سعدی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پند و نصائح جیسے خشک مضمون کو ایسے دلنشین انداز اور ایسی دلنشیں شکل میں بیان کرنے کی بنیاد ڈالی ہے کہ جس کی نذیر نہیں ملتی۔ نتیجتاً ان کی پند و نصائح کی کتاب ’’گلستان‘‘ فارسی زبان کی نثر کی وہ کتاب ہے، جس کا دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ 780 سال گزر جانے کے باوجود یہ کتاب مسلم ممالک کے دینی مدرسوں میں آج بھی پڑھائی جاتی ہے۔ سعدی پند و نصائح کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، بلکہ ہر موقع پر خواہ وہ موقع کسی بادشاہ، گورنر یا کسی امیر کی قصیدہ گوئی ہی کا کیوں نہ ہو، وہ اپنی نصیحتوں کی جگہ بنالیتے ہیں۔ ان نصیحتوں میں ان کا انداز عاجزانہ نہیں بلکہ جارحانہ ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں ایک بزرگ علی بن احمد، جنہوں نے شیخ سعدی کی کلیات جمع کی ہیں، ایک موقع پر رقمطراز ہیں کہ:
’’ہمارے زمانے کے علما و مشائخ ایک سبزی فروش اور قصاب کو بھی ایسی نصیحت نہیں کر سکتے جیسی کہ شیخ سلاطین اور امرائے وقت کو اور بادشاہان وقت کو آمنے سامنے کر دیا کرتے تھے۔ نصیحت کرنا اور حق بات کہہ دینا شیخ کی جرات مندی اور حق گوئی و بیبا کی اعلائے کلمۃ الحق کا بین ثبوت ہے۔ خود شیخ نے ’’گلستان‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’بادشاہوں کو نصیحت وہی شخص کرسکتا ہے جسے نہ اپنے سرکا خوف ہو اور نہ زر کی امید‘‘۔
اس سلسلے میں شیخ سعدی کا ایران کے منگول گورنر ’’انکیانو‘‘ کی مدح میں لکھے گئے ایک قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے:
ایک وقتے نطفہ بودی در شکم
وقت دیگر طفل بودی شیر خوار
(اے وہ کہ ایک وقت تو اپنی ماں کے پیٹ میں محض ایک نطفہ تھا، پھر وہ وقت آیا کہ تو ایک شیر خوار بچہ بن گیا)
مدتے بالا گرفتی تا بلوغ
سرو بالائے شدی سیمی عزار
(ایک مدت گزری اور تو سن بلوغث کو پہنچ گیا، اور سرو کی مانند بلند اور چاندی جیسے رخسار والا ہوگیا)
ہمچنیں تا مرد نام آور شدی
جان جنگجو یان و مرد کارزار
(اسی طرح وقت گزرا اور تو ایک مشہور مرد بن گیا، جنگجو لوگوں کی جان اور مرد کارزار بن گیا)
آنچہ دیدی برقرار خود نماند
آنچہ بینی ہم نماند برقرار
(جو کچھ تو نے اب تک دیکھا وہ اپنی حالت پر برقرار نہ رہا، اسی طرح جو تو اب دیکھ رہا ہے وہ بھی اپنی حالت پر برقرار نہ رہے گا)
نام نیک رفتگاں ضائع مکن
تابماندم نام نیکت برقرار
(گزرے ہوئے لوگوں کا نیک نام ضائع نہ کر، تاکہ تیرے گزر جانے کے بعد تیرا نیک نام برقرار رہے
نوٹ: تیسرے شعر کا دوسرا مصرع صحیح طور پر یاد نہیں رہا۔ یہ مصرع یا اس کا کچھ حصہ اپنی طرف سے کہہ کر شعر پورا کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اس کے لیے و دیگر ممکنہ غلطیوں کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ (مصنف)
اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’گلستان‘‘ میں ’’درد سبب تالیف کتاب‘‘ کے بیان کو ایک بڑی ہی پر اثر مثنوی پر ختم کیا ہے، جس میں تکمیل کتاب کی تاریخ بھی آگئی ہے:
’’دراں مدت کہ مارا وقت خوش بود
زہجرت شش صد و پنجاہ و شش بود‘‘
’’مراد ما نصیحت بود گفتیم
حوالت باخدا کردیم و رفتیم‘‘
(ان دنوں جب ہمیں کتاب مکمل ہو جانے کی وجہ سے خوشی وقتی حاصل ہوئی تھی، سن ہجری 656 تھا)
(ہماری مراد تمہیں نصیحت کرنا تھی سو ہم نے کر دی۔ ہم نے تمہیں خدا کے حوالے کردیا اور چلے گئے)
گلستان ہی میں ایک مقام پر صحبت کے اثر کو واضح کرنے کے لئے شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔ قطعہ:
گلے خوشبوئے درحمام روزے
رسید از دست محبوبے بدستم
(ایک دن حمام میں مجھے خوشبودار مٹی ایک محبوب کے ہاتھ سے ملی)
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویز تو مستم
( میں نے اس مٹی سے کہا تو مشک ہے یا عبیر کہ میں تو تیری خوشبو سے مست ہوگیا ہوں)
بگفتا من گلے نا چیز بودم
و لیکن مدتے باگل نشستم
(مٹی بولی کہ میں تو نا چیز مٹی ہی تھی لیکن ایک مدت تک میں گلاب کے پھول کی ہم نشین رہی ہوں)
جمال ہمنشیں در من اثر کرد
و گرنہ من ہما خاکم کہ ہستم
(میرے ہم نشین کے جمال نے مجھ پر اثر کیا۔ وگر نہ میں تو وہی حقیر مٹی ہوں کہ جو ہوں)
شیخ سعدی کا ایک بڑا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں ان کی شہرت بحیثیت ایک بلند پایہ اور منفرد شاعر، ایک دینی عالم اور ایک بے باک اور پراثر ناصح تمام مسلم دنیا میں پھیل گئی تھی۔ اور یہ مسلم دنیا اس وقت تین مختلف براعظموں ایشیا، افریقہ اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ اس زمانے میں ہوا، جبکہ ذرائع آمد و رفت بڑے محدود، بڑے تکلیف دہ، بڑے سست رفتار اور وقت خور تھے۔ یہ ذرائع گدھے، گھوڑے، اونٹ اور انسانی ٹانگوں پر مشتمل تھے۔ جو ممالک سمندر سے منسلک تھے، ان کے درمیان سفر سست رفتار بادبانی بحری جہازوں سے ہی ممکن تھا۔ ان تمام ممالک میں جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور تھے، سعدی کی شہرت کا ان کی زندگی ہی میں پہنچ جانا اور ہر ملک اور ہر مقام پر انہیں مقبول عام ہونے کا درجہ مل جانا شیخ سعدی کی شخصیت کا بہت بڑا امتیاز ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ شیخ سعدی شیراز سے ہزاروں کلومیٹر دور کسی اسلامی شہر میں ہیں اور وہاں لوگ صرف یہ معلوم کر کے کہ وہ شیراز کے رہنے والے ہیں یا شیراز سے آئے ہیں، ان سے شیخ سعدی کا کلام سننے کی فرمائش کر دیتے اور پھر خود انہی سے شیخ سعدی کے حق میں یا ان کے خلاف بحث و مباحثہ شروع کر دیتے۔ شیخ سعدی قبول عام کی اس صورت حال پر بہت شاداں تھے اور برحق شاداں تھے۔ اس کا ذکر انہوں نے گلستان کے دیباچہ میں بھی کیا ہے۔ (جاری ہے)