قسط نمبر: 166
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں الٹے ہاتھ میں لیمپ اور سیدھے ہاتھ میں ریوالور تھامے اس کمرے میں واپس آیا، جس میں دونوں بدمعاش بند تھے۔ میں کنڈی کھول کر اندر داخل ہونے سے پہلے تسلی کرلینا چاہتا تھا کہ کمرے کے اندر کی صورتِ حال جوں کی توں ہے، یعنی دونوں لٹیرے بدستور سوئے ہوئے ہیں۔ یہ خدشہ بے بنیاد نہیں تھا کہ امر دیپ والے کمرے کے دروازے پر دستکوں اور ہماری باتوں کی آواز سے ان دونوں کی نیند اچٹ گئی ہو۔ یہ درست ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ آپس میں باتیں ضرور کرتے، جو یقیناً میرے کانوں تک پہنچ جاتی۔ لیکن میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
میں نے بند دروازے سے کان لگاکر ان کی سن گن لینا چاہی۔ مجھے کوئی معمولی سی بھی آواز سنا ئی نہ دی۔ میں نے حقیقت پسندی سے صورتِ حال کا تجزیہ کیا۔ میرے پاس ہتھیار ہیں، جبکہ میرے حریف نہتے ہیں۔ لیکن انہیں مجھ پر عددی برتری حاصل ہے۔ اگر یہ دونوں ہٹے کٹے بدمعاش بیک وقت مجھ پر ٹوٹ پڑے تو مجھے شاید گولی چلانے کا موقع ہی نہ مل پائے۔ اس کے علاوہ کمرے میں مکمل اندھیرا ہے۔ وہ دونوں فوری طور پر تو مجھے نظر ہی نہیں آئیں گے اور میرے سنبھلنے تک وہ مجھے زیر کرچکے ہوں گے۔
لیکن خطرہ مول لینے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے لیمپ دروازے کے عین سامنے رکھا۔ دروازے کی کنڈی کھول کر دروازے کے دونوں پٹ زور سے اندر کی طرف دھکیلے اور تیزی سے پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ اپنا ریوالور میں نے مضبوطی سے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ لیمپ کی روشنی میں اندر کا جائزہ لیتے ہی میرا دل بری طرح دھڑک اٹھا۔ میرا اندیشہ غلط نہیں تھا۔ سامنے والی دیوار سے ٹیک لگاکر سونے والا ڈاکو اپنی جگہ سے غائب تھا۔ اب وہ دونوں یقیناً گھات لگائے میرے کمرے میں گھسنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اگر میں بے دھڑک اندر گھسنے کی حماقت کرتا تو اب تک مارا جا چکا ہوتا۔
میں نے کچھ دیر اندر سے کسی ردِ عمل کا انتظار کیا اور پھر رعب دار لہجے میں لٹیروں کو للکارا۔ ’’تم لوگ پوری طرح گھر چکے ہو۔ تمہارے ہتھیار میرے قبضے میں ہیں۔ کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو کتے کی موت مارے جاؤ گے۔ خیریت چاہتے ہو تو دونوں ہاتھ سرکے پیچھے…‘‘۔
میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اچانک دروازے کی آڑ سے ایک ہاتھ نکلا۔ مجھے چنگاریاں سی پھوٹتی نظر آئیں اور پھر ایک زور دھماکے سے برآمدہ لرز اٹھا۔ اس کے ساتھ میرے قدموں سے تین چار فٹ آگے زمین ادھڑ گئی اور دھول مٹی کا چھوٹا سا بادل اٹھتا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ میں صورتِ حال پوری سمجھ پاتا، یکے بعد دیگرے دوگولیاں اور چل چکی تھیں۔ میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہی کہاجا سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی میرے وجود میں پیوست نہ ہو سکی۔
اس سے پہلے کہ دروازے کے پٹ کے پیچھے جا چھپنے والا ریوالور بردار ہاتھ دوبارہ اندازے سے مجھے مار گرانے کی کوشش کرتا، میں نے تاک کر دروازے کے دونوں پٹوں پر ایک گولی چلائی اور بھاگ کر سامنے سے ہٹ گیا۔ میری گولیاں کم ازکم اس حد تک تو کارآمد رہیں کہ ریوالورکی جھلک فوری طور پر دوبارہ دکھائی نہیں دی۔
میں نے اپنے لہجے میں غیظ و غضب کی آگ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’لگتا ہے تم دونوں کو زندگی پیاری نہیں ہے۔ تم اکلوتے ہتھیار اور چند گولیوں سے میرا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم دونوں ہتھیار پھینک کر خود کو میرے حوالے کر دو تو میں تمہیں جان سے نہیں ماروں گا‘‘۔
میری دھمکی پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ ادھر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میرا اضطراب بڑھ رہا تھا۔ مجھے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے نہ صرف میں ابھی مرتے مرتے بچا تھا، بلکہ ان پر میری سبقت برائے نام رہ گئی تھی۔ میں نے اپنے طور پر فرض کرلیا تھا کہ ان دونوں کے پاس بس یہی دو ہتھیار ہیں، جو میں نے قبضے میں لے لیے ہیں۔ اپنے اسی مفروضے کے زیر اثر میں نے ان دونوں کی مزید تلاشی لینے کی زحمت ہی نہیں کی تھی۔
خاصے انتظار کے باوجود کمرے میں طاری سناٹے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا۔ اس کے ساتھ میرے ذہن پر اندیشوں کی دھند گہری ہونے لگی۔ یہ ڈاک بنگلا شاید ان لٹیروں کا مستقل ٹھکانا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کمرے میں مزید آتشیں ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہو۔ خصوصاً گولیوں کی تعداد کے حوالے سے میرا انتباہ تو غالباً نری گیدڑ بھبکی ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان ڈاکوؤں پر سبقت کا دعویٰ بھی کچھ زیادہ زوردار نہیں ہے۔ ریوالور کی موجودگی میں میرے لیے کمرے میں گھسنا خود کشی کے مترادف ہوگا، اور ان دونوں کو کمرے سے نکلنے پر مجبور کرنے کا میرا پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
میں نے مزید سوچا تو پریشانی بڑھ گئی۔ یہ عمارت ان ڈاکوؤ ں کا ٹھکانا اور یہ جنگل ان کے زیر تسلط علاقہ ہے۔ اگر میں انہیں جلد ازجلد اس کمرے سے نکالنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہا تو معاملات رفتہ رفتہ میرے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ ہوسکتا ہے فائرنگ کی آواز سن کر آس پاس کہیں موجود مزید ڈاکو بھی اس طرف آجائیں۔ میں اکیلا کیسے ان گنت ڈاکوؤ ں کا مقابلہ کر پاؤں گا۔ میرے پاس زیادہ مہلت نہیں ہے۔
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں ان ڈاکوؤں کی کم ازکم عددی برتری تو ختم کر سکتا ہوں۔ میں نے نشانہ تاک کر ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنے کمرے کے فرش پر ایک گولی چلائی اور بجلی کی سی تیزی سے اس کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا، جس میں امر دیپ اور مانو قید تھے۔ میں نے شاٹ گن کی نال دروازے پر لگے تالے سے لگ بھگ تین فٹ کے فاصلے پر رکھتے ہوئے نشانہ باندھ کر گولی چلائی۔ مہیب دھماکے سے عمارت لرز اٹھی اور کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔ (جاری ہے)
Next Post