عظمت علی رحمانی
خادم حسین رضوی کی مفتی منیب الرحمن سے ملاقات دیگر ہم مسلک جماعتوں کو تحریک لبیک پاکستان کے قریب لاسکتی ہے۔ تاہم دورہ کراچی میں علامہ خادم حسین رضوی کی مفتی منیب الرحمن سے ون آن ون ملاقات نہ ہونے کے سبب اس حوالے سے کوئی پیش رفت تاحال شروع نہیں ہوسکی۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کراچی میں شہدا کے گھروں پر جاکر اہل خانہ سے تعزیت کی اور زخمی کارکنان کی عیادت کرکے کارکنان کے حوصلے مزید بلند کئے۔ ذرائع کے مطابق بدھ کے روز ٹی ایل پی سربراہ کی رات گئے تک کارکنان سے ملاقاتیں کرائی جاتی رہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی نے حالیہ دھرنوں کے دوران کراچی میں شہید ہونے والے دو کارکنوں کے ورثا سے تعزیت اور 14 زخمیوں کی عیادت کیلئے کراچی کا خصوصی دورہ کیا۔ خادم حسین رضوی منگل چھ نومبر کو کراچی پہنچنے کے بعد ایئر پورٹ سے سیدھے لیاقت نیشنل اسپتال گئے، جہاں 14 زخمی کارکنوں میں سے بعض زیر علاج ہیں۔ انہوں نے زخمی کارکنوں سے ان کا حال احوال پوچھا اور ان کیلئے دعا بھی کرائی۔ اس کے بعد انہوں نے طے شدہ پروگرام کے تحت شام کو رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کراچی کے دیگر ذمہ داران بھی تھے۔ بعدازاں مفتی منیب الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ وفاقی وزیر مذہبی امور، وزیر قانون پنجاب و دیگر حکام نے تحریک لبیک سے جو معاہدہ کیا ہے، اس کو پورا ہونا چاہئے۔ معاہدے کے بعد لبرل قوتیں حکومت کو ابھار رہی ہیں، لیکن ریاست کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہئے۔ ملک اس وقت اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔ حکومت کو قائم ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا۔ لہذا حالات کا تقاضا ہے کہ مسائل میں اضافہ نہ کیا جائے۔ صبر و تحمل کے ساتھ ملک کو اس صورتحال سے نکالنا چاہئے۔ اگر معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو حکومت سے اعتبار ختم ہو جائے گا۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ وزیراعظم کو چاہئے کہ جذبات کے بجائے مکالمے کو فوقیت دیں۔ مودی کے ساتھ تو مذاکرات کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے لوگوں کے ساتھ مذاکرات میں پس و پیش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن سے ملاقات کے بعد علامہ خادم حسین رضوی رات کو ہی نیو کراچی میں واقع سندھی ہوٹل کے قریب شہید ہونے والے کارکنان کے گھروں پر گئے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ انہوں نے شہدا کیلئے دعا بھی کی۔ واضح رہے کہ تحریک لبیک کا سندھی ہوٹل نیوکراچی کے علاوہ پورے ضلع سینٹرل میں خاصا اثر و رسوخ ہے۔ گزشتہ الیکشن میں تحریک لبیک کے امیدوار مفتی عمر فاروق، سید امجد علی شاہ قادری اور سید اسلم باپو اسی علاقے کے رہنما ہیں۔ جبکہ سندھی ہوٹل کو ضلع سینٹرل کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں دو کارکنوں شاہد اور شہباز قادری کی شہادت اور 14 کارکنوں کے زخمی ہونے کی وجہ سے علامہ خادم حسین رضوی کی یہاں آمد انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ مقامی کارکنان کے شدید اصرار پر انہوں نے جامع مسجد بلال میں خطاب بھی کیا۔ جس کے بعد وہ دیگر زخمیوں کی عیادت کیلئے عباسی شہید اسپتال بھی گئے۔
’’امت‘‘ سے گفتگو میں مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ ’’خادم حسین رضوی سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ لیکن کیونکہ یہ ملاقات ون آن ون نہیں تھی، اس لئے ان سے کوئی خاص بات نہیں ہوسکی‘‘۔ دینی جماعتوں اور خصوصاً اہلسنت بریلوی مسلک کی جماعتوں کے اتحاد کے سوال پر مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ ’’دوسری جماعتوں کے الائنس موجود ہیں۔ تاہم میں کسی جماعت کے نظم کا حصہ نہیں ہوں اور نہ کسی پارٹی کا حصہ ہوں، اس لئے میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اگر میری علامہ خادم حسین رضوی سے ون آن ون ملاقات ہوتی تو شاید اس موضوع پر بات بھی ہوتی۔ میں نے حکومت کو کہا ہے کہ تحریک لبیک سے کئے گئے معاہدے کی پاسداری کی جائے۔ اگر معاہدے کی پاسداری نہ کی گئی تو حکومت پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور میڈیا، پارلیمان میں موجود لبرل قوتوں کی خواہشات پر عمل درآمد ہوگا جو نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کو دینی قوتوں کے خلاف ابھارنا خیر خواہی نہیں، بلکہ بدخواہی ہے اور ایسے تصادم سے حکومت کو بچنا چاہئے ہے‘‘۔
تحریک لبیک پاکستان کے قائد علامہ خادم حسین رضوی نے کہا ہے کہ حکومت اپنے وزرا کو لگام دے، جو مداخلت فی الدین کرکے ملک میں فساد فی الارض پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ قومی میڈیا کا ایک مخصوص طبقہ بھی چنگاری کو بھڑکتے شعلے بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم معاہدے پر خلوص سے عمل کر رہے ہیں، لیکن بعض وزرا اور نوکر شاہی میں موجود کالی بھیڑیں حکومت اور تحریک لبیک کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں۔ وزیراعظم معاہدے کی روح کے مطابق حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں کو جلد پورا کرواکر ملک میں پھیلی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کریں۔ ہماری منزل اسلام آباد نہیں مدینہ طیبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 25 جولائی کو انتخابات میں دھاندلی کیخلاف ہم نے خاموشی اختیار کی۔ ہم نظریہ پاکستان کے مطابق اکابرین پاکستان کی تاریخی جدوجہد کے وارث ہیں اور پاکستان کو نظام مصطفی کا گہوارہ بنانے کیلئے پر امن جمہوری حق کو استعمال کرکے اپنے ہدف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ ہم ملک کی سالمیت اور قوم کی آزادی سے کسی کو بھی کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، عوام چاہتے ہیں کہ آسیہ ملعونہ کیس پر نظرثانی میں بیرونی مداخلت کو مکمل طور پر مسترد کردیا جائے‘‘۔
دینی حلقوں خصوصاً اہلسنت بریلوی مسلک کے بعض رہنماؤں کا ماننا ہے کہ تحریک لبیک کے سربراہ کا مفتی منیب الرحمن کے پاس آنا نیک شگون ہے۔ کیونکہ مفتی منیب الرحمن اہلسنت بریلوی مسلک کی تمام جماعتوں کے نزدیک نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کا کہنا کوئی بھی جماعت ٹال نہیں سکتی۔ تاہم اہلسنت بریلوی مسلک کی سب سے بڑی جماعت تحریک لبیک ہے۔ اس لئے مفتی منیب الرحمن اور خادم حسین رضوی کی مزید ملاقاتیں اہلسنت و الجماعت کی دیگر جماعتوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔