سنکیانگ میں مسلم مخالف کریک ڈائون سے پاکستانی بھی متاثر ہوئے

0

پہلی قسط
نمائندہ امت
چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کیخلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ مختلف پابندیوں کے علاوہ مسلمان مرد و خواتین کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سنکیانگ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی کاروباری سرگرمیاں ہیں اور کئی پاکستانیوں نے وہاں مسلمان خواتین سے شادیاں کی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 300 چینی مسلمان خواتین، جنہوں نے پاکستانی مردوں سے شادیاں کی ہیں، انہیں چینی حکام نے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔ ’’امت‘‘ نے ایسے پاکستانی مردوں سے بات چیت کی، جنہوں نے چینی خواتین سے شادیاں کی تھیں، لیکن اب انہیں چین سے نکال کر ان کے بیوی بچوں کو چینی حکام نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ زیر نظر رپورٹ میں حفاظتی نقطہ نظر سے متاثرہ افراد کے اصل نام ظاہر نہیں کئے گئے ہیں۔
چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کیخلاف کریک ڈائون پر دنیا بھر میں احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے چین کی حکومت سے سنکیانگ میں قائم حراستی کیمپوں میں رکھے گئے مسلمانوں کے حوالے سے جواب طلب کیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ نے بھی کیمپوں میں رکھے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان کیمپوں میں 10 لاکھ افراد کو رکھا گیا ہے۔ سنکیانگ میں ایک بھی مسلم خاندان ایسا نہیں، جس کا کوئی فرد ان کیمپوں میں دو سال سے موجود نہ ہو۔ چین کے سرکاری ذرائع نے ان کیمپوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ری ایجوکیشن سینٹر قرار دیا ہے۔ ایک پاکستانی تاجر نے اپنی چینی بیوی اور بچوں کو دو سال سے نہیں دیکھا۔ چین سے بے دخلی اور اربوں روپے سے محروم ہونے کے بعد وہ اب پاکستان میں سیلزمین کی ملازمت کررہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ میں دو سال سے کریک ڈائون جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 10 لاکھ مسلمان مرد و خواتین کو حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، جہاں ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ چینی حکام نے ان کیمپوں کی تردید یا تصدیق نہیں کی، تاہم بالواسطہ طور پر چین کے سرکاری ذرائع نے ایک طرح سے تصدیق بھی کی ہے۔ ان کیمپوں کے انچارچ شہرت ذاکر نے چین کے سرکاری میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ… ’’پیشہ ورانہ تعلیم کے یہ مراکز دہشت گردی کو روکنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ تربیت پانے والے لوگ یہ موقع ملنے پر شکرگزار ہیں کہ انہیں اپنے طور طریقے بدلنے اور زندگی کو زیادہ رنگین بنانے کا موقع مل رہا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’خطہ 90 ء کی دہائی سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی تین شیطانی قوتوں کی زد میں ہے۔ اس لیے حکومت کو ان کی جڑ کاٹنے کیلئے اقدامات کرنے پڑے۔ پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام اب چینی قانون کا حصہ بن گیا ہے اور اس کی مدد سے زیرِ تربیت افراد کو اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے، تاکہ وہ واضح طور پر دیکھ سکیں کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے کیا نقصانات ہیں۔ ان مراکز میں چینی تاریخ، زبان اور ثقافت پڑھائی جاتی ہے اور شرکا کو قوم، شہریت اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہاں موجود ہاسٹلز میں مکمل سہولیات میسر ہیں اور کیمپوں میں باقاعدگی سے کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ سنکیانگ میں بسنے والے ایغور ترکی النسل مسلمان ہیں اور ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی اعتبار سے وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترکی زبان سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔
حالیہ دنوں میں انسانی حقوق کی عالمی تنظموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایغور مسلمانوںکے حوالے سے اقوام متحدہ میں دستاویزات جمع کرائی ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ قیدیوں کو فردِ جرم کے بغیر رکھا گیا ہے۔ انہیں ناکافی خوراک دی جاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ انہیں وکیل کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایغور مسلمانوں کو حکومت کی سخت نگرانی کا سامنا ہے۔ انہیں اپنے ڈی این اے اور بائیومیٹرکس کے نمونے دینے پڑتے ہیں۔ جن لوگوں کے رشتہ دار انڈونیشیا، قازقستان اور ترکی جیسے 26 حساس ممالک میں ہیں، انہیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک سے باہر واٹس ایپ پر کسی سے رابطہ کرنے والوں کو بھی حراست میں لیا جا رہا ہے۔
حراستی کیمپوں کے بعض سابق قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہیں کیمپوں میں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کے پورے پورے کنبے غائب کردیئے گئے۔ پورا سنکیانگ صوبہ حکومتی اداروں کی نگرانی میں ہے۔ ایک شخص عمر نے بی بی سی کو بتایا… ’’وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے، ہمیں گھنٹوں لٹکائے رکھتے اور پیٹتے رہتے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے ہنٹر تھے۔ جسم میں چبھونے کیلئے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کیلئے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر استعمال کیا جاتا‘‘۔ ایک شخص عزت نے بتایا…’’رات کے کھانے کا وقت تھا۔ تقریباً 1200 افراد ہاتھوں میں پلاسٹک کے خالی کٹورے لیے کھڑے تھے، انہیں چین کے حق میں گیت گانے پر کھانا دیا جارہا تھا۔ وہ روبوٹ کی طرح تھے۔ ان کی روحیں مر چکی تھیں۔ ان میں سے بہت سوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا۔ ہم ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے تھے۔ لیکن اب وہ اس طرح کا برتاؤ کر رہے تھے جیسے کسی کار کریش کے بعد ان کی یادداشت جاتی رہی ہو‘‘۔
سنکیانگ میں چینی حکومت کے کریک ڈائون سے کئی پاکستانی بھی متاثر ہوئے ہیں، جن میں اکثریت گلگت بلتستان کے لوگوں کی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق متاثرہ پاکستانیوں کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ وہاب خان (فرضی نام) بھی ایسے ہی ایک متاثرہ شخص ہیں۔ ان کی کہانی ان کی زبانی نذر قارئین ہے۔ ’’میرا تعلق پنجاب کے ایک کاروباری خاندان سے ہے۔ 1999 میں، میں نے بھی والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا تھا۔ ایک سال کے اندر ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ پاکستان کی مارکیٹ پر چین کی مصنوعات کا قبضہ ہے۔ میں نے والد سے کہا کہ اشیا تو ہم بھی چین ہی کی فروخت کر رہے ہیں، کیوں نہ ہم براہ راست چین سے خریداری کریں، اس میں زیادہ فائدہ ہوگا۔ والد نے میری بات توجہ سے سنی اور کہا کہ اس پر کام شروع کردو۔ میں نے معلومات حاصل کیں، سروے کیا اور پھر ساری تفصیل والد کو بتا دی۔ جس پر وہ مطمئن ہوگئے اور پھر 2001ء میں، میں بیجنگ پہنچ گیا۔ پاکستان سے روانگی سے قبل ہی میں نے اپنے لیے ایک خاتون مترجم اور گائیڈ کا انتظام کرلیا تھا۔ یہ نور ہاشم (فرضی نام) تھیں، جن کا تعلق سنکیانگ سے ہے اور وہ ایغور مسلمان ہیں۔ نور ہاشم سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف بہت اچھی اردو بولتی ہیں بلکہ جوتوں اور کپڑوں کی مارکیٹ کے بارے میں بھی بہت معلومات رکھتی ہیں۔ یہ میرا پہلا ٹور تھا، اس لیے خریداری کا بجٹ بھی کم رکھا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اگر منافع نہ بھی ہوا تو کوئی بات نہیں، تجربہ تو ہوجائے گا۔ مگر نور ہاشم کی مدد سے میں نے چین میں جو خریداری کی، اس سے اندازہ ہوگیا کہ اس پہلے ہی ٹور میں مجھے اچھا منافع مل جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا، جس سے والد بھی بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد میرا چین آنا جانا شروع ہوگیا۔ ہر ٹور کے موقع پر نور ہاشم میری مددگار ہوتیں۔ 2004ء تک میں نے چین کے چھ ٹور کیے تھے اور میرا کاروبار لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک پہنچ گیا تھا۔ اس دوران نور ہاشم کے ساتھ بھی ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیا تھا۔ اب نور ہاشم میری مترجم اور گائیڈ نہیں تھیں، بلکہ ان کو میں نے کمیشن ایجنٹ کا رول دے دیا تھا، جس پر وہ بہت خوش تھیں۔ 2004ء ہی میں نور ہاشم نے مجھ سے پاکستان میں میرے کاروبار کے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ جب میں نے اپنے کاروبار کے متعلق بتایا تو وہ بہت پرجوش ہوئیں اور مجھ سے کہا کہ اگر میں پردے سے متعلق اسلامی مصنوعات سنکیانگ میں فراہم کرسکوں تو بہت منافع ہوگا۔ میں بھی اس تجویز پر خوش ہوا اور نور ہاشم کے ساتھ طے کیا کہ اگلا ٹور شاہراہ قراقرم کے راستے کاشغر کا ہوگا اور 2005ء میں ایسے ہی ہوا۔ اس دوران مجھے پتا چلا کہ نور ہاشم کا تعلق بھی سنکیانگ سے ہے۔ سنکیانگ کے پہلے ہی دورے میں مجھے لاکھوں کے آرڈر ملے، ظاہر ہے بھاری منافع بھی۔ اب میرا کاروبار صرف چین سے خریداری نہیں بلکہ فروخت بھی تھا۔ جبکہ نور ہاشم ایک طرح سے میری پارٹنر بن چکی تھیں۔ اس دوران ہم دونوں قریب آنا شروع ہوچکے تھے اور 2007ء میں ہم نے چین کے قوانین کے مطابق شادی کرلی۔ اس کے بعد چین میں موجود کاروبار نور ہاشم دیکھتی تھیں اور پاکستان کے معاملات میں دیکھتا۔ پہلے سال میں ایک دو مرتبہ ہی چین آنا جانا ہوتا تھا، اب زیادہ وقت چین میں گزرنے لگا تھا۔ جبکہ کاروبار بڑھ کر اربوں روپے تک پہنچ چکا تھا۔ 2014ء تک حالات ٹھیک ٹھاک تھے۔ اس دوران میں نے سنکیانگ میں ایک دکان اور مکان بھی خرید لیا تھا۔ چین میں میرا اچھا خاصا بینک بیلنس بھی تھا۔ پھر 2014ء میں میرے والد کا انتقال ہوگیا اور اسی سال چین بالخصوص سنکیانگ میں مسلمانوں کے حوالے سے نئے قوانین متعارف ہوئے۔ والد کی وفات پر نور ہاشم ہمارے تین بچوں کے ہمراہ پاکستان آئی تھیں۔ لیکن جب واپس گئیں تو سنگین مسائل ہمارے منتطر تھے۔ اسی سال چین کے حکام سنکیانگ میں ہماری دکان پر آئے اور انہوں نے عبایا، چادر، برقع کی فروخت پر اعتراض کیا۔ اس وقت میں پاکستان میں تھا۔ نور ہاشم نے مجھے فون پر بتایا تو میں نے فوراً کہا کہ جن اشیا پر انہیں اعتراض ہے، ان کو ان کے سامنے تلف کردو اور انہیں بتاؤ کہ ہم دوبارہ یہ اشیا فروخت نہیں کریں گے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد 2016ء تک ہمارے حالات ٹھیک رہے۔ اسی سال ہم نے حج کا پروگرام بنایا اور نور ہاشم اور بچوں کا پاکستان کا ویزہ لگوایا۔ پھر پاکستان سے حج کیلئے چلے گئے۔ حج سے واپسی پر 2016ء کے آخر میں ایک روز جب میں چین ہی میں تھا تو چینی حکام ہمارے گھر آئے اور کہا کہ وہ ہمارے پاسپورٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ان کے حوالے کردیں۔ وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ ہمیں محتاط رہنا چاہئے اور چین کے قوانین کی پابندی کرنا چاہئے۔ میں سمجھ چکا تھا کہ اب حالات اچھے نہیں رہیں گے۔ میں نے نور ہاشم سے مشورہ کیا اور پھر دوسرے ہی روز اس کا پاسپورٹ لے کر پاکستانی سفارت خانے پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ پہلے نور ہاشم اور بچوں کو پاکستان پہنچا دوں، پھر کاروبار کے بارے میں سوچوں گا۔ میں پاکستانی سفارت خانے پہنچا۔ بیوی اور بچوں کے پاسپورٹ پر ویزا لگوایا، اس کے بعد ٹکٹ بنوایا۔ لیکن ٹریول ایجنٹ نے مجھے بتایا کہ نور ہاشم اور بچوں کا پاسپورٹ منسوخ ہوچکا ہے اور ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی ہے۔ یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں نے بہت بھاگ دوڑ کی، لیکن تمام کوششیں بے سود رہیں۔ باوجود اس کے کہ کاروباری ضرورتوں کی وجہ سے مجھے پاکستان جانا تھا لیکن میں نہیں گیا۔ پھر 2017ء کی ایک شب چین کی پولیس ہمارے گھر آئی اور انہوں نے نور ہاشم کو ساتھ چلنے کا کہا اور اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ کہہ کر گئے تھے کہ نور ہاشم کچھ دنوں بعد واپس آجائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میں نے بہت دوڑ دھوپ کی لیکن نور ہاشم کو نہیں چھڑا سکا۔ میرے تین بچے جو اسکول جاتے ہیں، وہ بھی پریشان حال ہیں۔ نور ہاشم کو سرکاری تحویل میں لینے کے دس پندرہ دن بعد چینی حکام پھر ہمارے گھر آئے اور مجھ سے میرا پاسپورٹ طلب کیا۔ میں نے پاسپورٹ دیا تو انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں اس گھر میں نہیں رہ سکتا، کیونکہ یہ گھر نور ہاشم کے نام پر ہے اور میں چین میں اس وقت تک رہ سکتا ہوں جب تک ویزا موجود ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کاروبار میں بھی کرنا پڑا۔ میں چین میں غیر ملکی تھا، اس وجہ سے مکان، دکان اور بینک اکائونٹ وغیرہ سب کچھ نور ہاشم کے نام پر تھا۔ بچوں کی حالت بھی غیر تھی۔ وہ کبھی نور ہاشم کے ایک رشتہ دار اور کبھی دوسرے عزیز کے گھر رہتے تھے۔ ایسے میں میرا ویزا ختم ہوگیا اور مجھے واپس پاکستان آنا پڑا۔ میرا ارادہ تھا کہ دوبارہ ویزا لگواکر چین چلا جائوں گا۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ پاکستان پہنچ کر مجھے چین کا ویزا نہیں دیا جائے گا۔ مجھے درخواست دیئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا، چینی سفارتخانہ کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔ چین میں میرے بچے دربدر ہیں۔ پاکستان سے اگر چین فون بھی کروں تو جس کو فون کرتا ہوں، وہ بھی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ تقریباً دو سال سے بیوی اور بچوں کو نہیں دیکھا ہے۔ کوئی پتا نہیں بیوی کس حال میں ہے۔ جبکہ بچوں کی زندگی انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان میں متعلقہ حکام کو بھی درخواستیں دی ہیں اور چین میں بھی، مگر کوئی بھی معقول جواب دینے کو تیار نہیں۔ میرا کاروبار تباہ ہوچکا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اگر مارکیٹ میں لوگوں نے میرے لاکھوں، کروڑوں روپے دینے ہیں تو میں نے بھی لوگوں کے پیسے دینے ہیں۔ مگر کس کو دوں اور کس سے لوں؟ کیونکہ کاروبار تو ختم ہوچکا ہے۔ ایک کاروباری دوست نے مجھے کمیشن پر مال فروخت کرنے کیلئے دیا ہوا ہے، یعنی اب میں سیلز مین ہوں۔ میں حکومت پاکستان اور چین سے اپیل کرتا ہوں کہ ہماری حالت پر رحم کیا جائے۔ اگر نور ہاشم کا کوئی جرم ہے تو مقدمہ چلائیں۔ اگر
نہیں تو اس کو رہا کردیں۔ اگر چینی حکام چاہتے ہیں کہ میں چین میں نہ رہوں، تو میں نور ہاشم اور بچوں کو لے کر پاکستان واپس آجائوں گا‘‘۔ (جاری
ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More