نمائندہ امت
ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں سفاک رشتہ داروں نے ظالم کے بجائے مظلوم سگی بہنوں کو غیرت کے نام پر مار ڈالا۔ گزشتہ اتوار کی شب نو بجے بسراں اور فرزانہ کو اغوا کیا گیا تھا۔ تاہم ملزمان چند گھنٹے بعد دونوں لڑکیوں کو گھر کے باہر چھوڑ گئے تھے۔ جس کے بعد چچا زاد بھائیوں نے بہیمانہ تشدد کرکے دونوں کو قتل کردیا۔ بسراں اور فرزانہ کے قتل کا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کرکے مقتولین کے چچا زاد بھائی شاہ نواز اور قریبی عزیز محمد سلیم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر مقتول لڑکیوں کا والد مرید حسن اور چچا فرید حسن ولد گلاب خان اور دیگر افراد بھی موجود تھے، لیکن مقدمے میں صرف دو ملزمان کو نامزد کرکے گرفتار کیا گیا۔ دونوں لڑکیوں کو ان کے قتل سے دس بارہ گھنٹے قبل اغوا کیا گیا تھا۔ جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ چار نومبر کو رات نو بجے دونوں بہنیں اپنی مرضی سے اغوا کاروں کے ساتھ ان کی موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر گئی تھیں۔ اغوا کار چند گھنٹے بعد علی الصبح چار بجے انہیں ان کے ڈیرے (گھر) پر اتار گئے۔ جس کے بعد بیس سالہ بسراں بی بی اور اس کی چھوٹی بہن اٹھارہ سالہ فرزانہ بی بی کو قریبی رشتہ داروں نے غیرت کے نام پر تشدد کرکے قتل کر دیا اور لاشیں قریبی کھیت میں پھینک دیں، جو بعد میں پولیس کی نگرانی میں اٹھائی گئیں۔
رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں بھونگ نامی ایک قصبہ فن تعمیر کا شاہکار ایک مسجد کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ اسی قصبے کے تھانہ بھونگ کی نواحی بستی محمد مراد ڈاہر میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس دیہی علاقے کے ایک لنک روڈ پر راجن پور کے رہنے والے احمد علی کھڑو کی زرعی زمین ہے اور اس نے پیٹرول پمپ بھی لگا رکھا ہے۔ احمد علی کا پوتا شاہ مرید ولد سیف اللہ یہاں اکثر موجود ہوتا ہے۔ پولیس ذرائع اور ایف آئی آر کے مطابق شاہ مرید اور اس کے ڈرائیور علی دوست عرف سچو کا پیٹرول پمپ کے قریب رہائش پذیر ایک چھوٹے زمیندار مرید حسین کے گھر آنا جانا تھا۔ قتل کی جانے والی بسراں اور فرزانہ مرید حسین کی بیٹیاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق کچھ شک گزرنے پر مرید حسین نے شاہ مرید اور اس کے ڈرائیور سچو کو اپنے گھر آنے سے منع کر دیا۔ اس کے چند دن بعد چار نومبر کی رات نو بجے یہ دونوں اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مرید حسین کے گھر آئے اور دونوں لڑکیوں کو زبردستی موٹر سائیکلوں پر بٹھا کر لے گئے۔ مرید حسین نے اس کی اطلاع فون پر پولیس کو دے دی۔ کیونکہ اس مقام سے تھانہ بھونگ کا فاصلہ لگ بھگ بارہ کلو میٹر ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق رات گئے پولیس وین گشت کرتے ہوئے یہاں بھی پہنچی، جہاں پانچ نومبر کی صبح ان دونوں لڑکیوں پر ان کے اپنے رشتہ دار تشدد کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ اس قتل کیس کے مدعی اے ایس آئی رانا محمد رمضان کے مطابق ابھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔
دوہرے قتل کی اس واردات کی دو مختلف ایف آئی آر تھانہ بھونگ میں درج کی گئی ہیں۔ پہلی ایف آئی آر 221/18 میں لڑکیوں کے والد مرید حسین کی مدعیت میں ملزمان شاہ مرید، علی دوست اور ان کے ساتھی جبران کے خلاف بسراں اور فرزانہ کو بہلا پھسلا کر زیادتی کی خاطر اغوا کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق نامزد ملزمان فرار ہوگئے ہیں اور ان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ دوسری ایف آئی آر 222/18 بھونگ تھانے کے اے ایس آئی رانا محمد رمضان کی مدعیت میں درج کی گئی ہے، جس میں نامزد دونوں ملزمان شاہ نواز اور محمد سلیم جو کہ مقتول لڑکیوں کے قریبی عزیز ہیں، انہوں نے گرفتاری دے دی ہے اور وہ حوالات میں بند ہیں۔ ان ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 302، 311 اور 34 کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق مقتولین پر تشدد کرکے اور گلے میں پھندا ڈال کر انہیں قتل کیا گیا۔
دوہرے قتل کیس کے تفتیشی افسر اور مقدمہ کے مدعی اے ایس آئی رانا محمد رمضان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بسراں اور فرزانہ کو لے جانے والے شاہ مرید وغیرہ کا مقامی ذرائع کے مطابق لڑکیوں کے گھر آجانا تھا اور خاندان کی سطح پر راہ و رسم تھی۔ لیکن بعد میں کسی وجہ سے تعلقات خراب ہوئے، تو چار اور پانچ نومبر کی درمیانی رات نو بجے دونوں بہنیں اپنے گھر والوں کی مرضی کیخلاف مفرور ملزمان کے ساتھ چلی گئیں یا اغوا کرلی گئیں، جس کی اطلاع پولیس کو رات ہی مل گئی تھی۔ اسی رات پولیس نے اس گاؤں میں پہنچ کر لڑکیوں کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع کیں۔ تاہم اس دوران دونوں لڑکیوں پر ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں نے غیرت میں آکر تشدد کیا اور گلے میں پھندا دے کر انہیں قتل کردیا۔ اب پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے، جس میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے الزام اور موت کی وجہ کے حقائق سامنے آئیں گے۔ تفتیشی افسر رانا محمد رمضان کے مطابق بظاہر دونوں خاندانوں کا اس کیس کے علاوہ لین دین کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ قتل کے ملزمان گرفتار ہیں، جبکہ مبینہ اغوا کار جو کہ نوجوان ہیں، مفرور ہوگئے ہیں۔ ان کی جلد گرفتاری کے لیے پولیس متحرک ہے۔ ان مفرور ملزمان کا آبائی علاقہ روجھان ضلع راجن پور ہے، ممکن ہے ملزمان وہاں روپوش ہوگئے ہوں۔ لیکن ان کی جلد گرفتاری کے لیے اعلیٰ حکام اقدامات کر رہے ہیں۔