ٹیکس چور میدیکل آلات کمپنی سرکاری اسپتالوں کی منظور نظر بن گئی
کراچی( رپورٹ :عمران خان )اربوں روپے مالیت کے میڈیکل آلات کی در آمد میں ٹیکس چوری کرنے والی کمپنی سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ کی منظور نظر بن گئی ،کسٹم اور نیب تحقیقات کی زد میں آنے والی ٹیکس چور کمپنی نے سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں میں میڈیکل آلات فراہم کرنے کے لئے تین ارب روپے کے ٹھیکے حاصل کرلئے ،جس کے عوض ٹھیکے منظور کرنے والے حکام کو کروڑوں روپے کا کمیشن دینے کا انکشاف ہوا ہے ،بیرون ملک سے آلات سپلائی کرنے والی بڑی کمپنی جعلسازی کے ذریعے کسٹم حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک کراربوں روپے مالیت کے آلات پر کروڑوں روپے ٹیکس چوری کرکے لاتی رہی اور دوسری جانب سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں سے ٹھیکے لینے کے لئے ”کک بیکس “ کے طور پر بھاری رقم ادا کی جارہی ہے ،جبکہ اسپتالوں سے آلات کے عوض پوری رقم وصول کرلی جاتی ہے۔ اس ضمن میں اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ”میڈی کوئپ “ نامی کمپنی کے خلاف کسٹم میں کروڑوں روپے کا ٹیکس چوری کا مقدمہ درج ہونے کے بعد نیب حکام نے بھی کمپنی اور ٹھیکے دینے والے اسپتالوں کے ڈاکٹروں کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں ۔ نیب میں تحقیقات اس وقت شروع کی گئیں ،جب سندھ سمیت ملک بھر کے سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں کے لئے میڈیکل آلات در آمد کرنے والی ٹیکس چوری میں ملوث کمپنی کو 3ارب روپے کے ٹھیکے ملنے کا انکشاف ہواجس میں 18انجوگرافی مشینیں ، ایکسرے اورسٹی اسکین کی مشینیں اور کلر ڈوپلرز وغیرہ کے ٹھیکے شامل ہیں جو کہ سندھ بھر میں سپلائی کئے جارہے ہیں ،کسٹم ذرائع کے بقول یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ ماہ کمپنی کی ٹیکس چوری پکڑی گئی ، ”میسرز میڈی کوئپ “نے کروڑوں روپے کا ناجائز منافع حاصل کرنے کے لئے مس ڈکلریشن کرتے ہوئے 10سے زائد کھیپیں منگوائیں تھیں ،کمپنی کے خلاف ایک کیس ثابت ہونے کے بعد اس کا ماضی کا تمام ریکارڈ نکال کرتحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا،کسٹم ذرائع کے مطابق ماڈل کسٹم کلیکٹوریٹ اپریزمنٹ ایسٹ نے ٹیکس چوری میں ملوث طبی آلات درآمد کرنے والی کمپنی میڈی کوئپ کے خلاف رپورٹ جاری کردی ،کسٹم ذرائع کے مطابق میڈی کوئپ نامی کمپنی کی جانب سے بیرون ملک سے ایکسرے مشین یونٹس در آمد کئے گئے جن کی کسٹم کلیئرنس کے لئے جمع کروائی گئی گڈ ڈکلریشن ( جی ڈی ) میں قیمت فی ایکسرے یونٹ 4ہزار ڈالرز ظاہر کرکے 6یونٹس کی قیمت 24ہزار ڈالرز ظاہر کی گئی شک ہونے پر ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کے کلکٹر سعید اکرم نے کسٹم افسرحمود الرحمن کو مکمل جانچ پڑتال کی ہدایات جاری کیں ،کھیپ کی جانچ پڑتال کے بعد معلوم ہوا کہ کمپنی نے کاغذات میں مس ڈکلریشن کرتے ہوئے طبی آلات کی قیمت کم ظاہر کی اور قومی خزانے کا کسٹم ڈیوٹی کی مد میں بھاری نقصان سے دوچار کیا ،جس پر کلکٹر کے احکامات پر کمپنی مالکان کو رپورٹ جاری کردی گئی ،ذرائع کے مطابق میڈی کوئپ کی جانب سے میڈیکل آلا ت کی جو کنسائنمنٹ فی یونٹ 4ہزار امریکی ڈالرپر ظاہر کرکے منگوائی گئی تھی بالکل اسی طرح کی کنسائمنٹ کچھ عرصہ قبل پنجاب ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 34ہزار ڈالرفی یونٹ کے حساب سے منگوائی گئی تھی ،کسٹم ذرائع کے مطابق مذکورہ کمپنی کی چوری پکڑے جانے کے بعد اپریزمنٹ ایسٹ کے شعبہ آر اینڈ کو کلکٹر سعید اکرم کی جانب سے خصوصی ہدایات دی گئیں کہ اس کمپنی کی جانب سے ماضی میں امپورٹ کئے گئے طبی آلات کے حوالے سے جمع ہونے والی گڈز ڈکلریشن کی بھی جانچ پڑتا ل کی جائے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ کمپنی نے مجموعی طور پر کتنے کروڑ روپے کا چونا قومی خزانے کو لگایا ہے ،ذرائع کے بقول اب تک کمپنی کی 10جی ڈیز کا ریکارڈ حاصل کرلیا گیا ہے جس پر تحقیقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی اس معاملے پر نیب حکام کو بھی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، کیونکہ ٹیکس چوری کرنے والی کمپنی کو مالی سال 2017-18اور مالی سال 2018-19کے دوران مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں میں مذکورہ میڈیکل آلات فراہم کرنے کے لئے لگ بھگ تین ارب روپے کے ٹھیکے ملے ہیں ،جس میں سے کچھ سامان فراہم کردیا گیا ہے اور کچھ سامان ابھی منگوایا جانا ہے ،ذرائع کے بقول ٹیکس چوری کرکے سستے داموں آلات منگواکر ٹھیکوں کی نیلامی میں شامل دیگر کمپنیوں کو بولی سے باہر کرادیا جاتا ہے جوکہ پورا ٹیکس ادا کرکے مہنگے داموں سامان منگواکر سپلائی کرتی ہیں ،جبکہ ٹیکس چوری کرکے بچائی گئی رقم میں سے ٹھیکے دینے والے سرکاری ڈاکٹروں کو بھی کمیشن کی مد میں بھاری رقم ادا کی جاتی ہے ۔اس طرح سے ٹیکس چوری ،فراڈ اور کرپشن کا منظم دھندہ چلایا جارہا ہے ،جس پر نیب حکام نے کافی حد تک تحقیقات کو آگے بڑھایا ہے ،اس ضمن میں موقف کے لئے لاہور میں مرکزی دفتر رکھنے والی میڈی کوئپ کمپنی کے کراچی میں معاملات دیکھنے کے ذمے دار رضوان مارفانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کمپنی کے ٹیکس چوری کے مقدمے اوردیگر معاملا ت سے لاعلم ہیں ۔انہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے ۔