امت رپورٹ
نیب نے خیبرپختون کے عجائب گھروں سے نوادارت غائب ہونے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ مورتیوں اور دیگر تاریخی نوادرات کا سراغ لگانے کیلئے پشاور میوزیم سے 1998ء سے 2018ء تک کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا ہے، جبکہ سوات، لوئر دیر، چارسدہ اور تخت بھائی کے مراکز کی بھی چھان بین کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سیکورٹی وجوہات کی بنا پر مورتیاں اور دیگر نوادرات عجائب گھروں سے منتقل کئے گئے، جنہیں آج تک واپس نہیں لایا گیا۔ بلکہ ان کی جگہ نقلی نوادرات رکھے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ سوات اور دیر لوئر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے کروڑوں مالیت کے نوادرات اور مورتیاں تباہ کرنے کے ڈر سے یہ نوادرات پشاور منتقل کر دیئے گئے تھے، جبکہ بعض علاقوں میں یہ اپنے مراکز میں موجود تھے۔ تاہم اب انکشاف ہوا ہے کہ اصل نوادرات اور مورتیاں جو شدت پسندی کے خلاف جنگ کے دوران نکال لی گئی تھیں، ان کی جگہ نقلی اشیا تیار کر کے رکھی گئی ہیں۔ تفصیلی رپورٹ ملنے کے بعد نیب نے گزشتہ روز خیبرپختون کے تاریخی میوزیم کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق اس میوزیم کی ایک مورتی اس وقت لاہور میں کئی برسوں سے موجود ہے، جسے چوری کر کے نیویارک میں فروخت کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد امریکی حکومت نے اسے پاکستان کے حوالے کیا۔ تاہم شدت پسندی کی وجہ سے اس مورتی کو لاہور میں رکھا گیا، جس سے پنجاب حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کا منافع ہو رہا ہے۔ خیبر پختون میں ایم ایم اے کی حکومت نے اس مورتی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اس وقت شدت پسندی کو بہانا بنا کر اسے واپس نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد اے این پی کی حکومت نے بھی اس مورتی کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس وقت بھی مورتی واپس نہیں کی گئی۔ تاہم پی ٹی آئی کی گزشتہ اور موجودہ حکومت نہ صرف اس سلسلے میں خاموش ہے، بلکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت کو مورتی واپس پشاور لانے میں کوئی قانونی رکاوٹ درپیش بھی نہیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) خیبر پختون نے پشاور میوزیم سے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی نوادرات اسمگل کرکے ان کی جگہ نقلی نوادرات رکھنے اور سینکڑوں غیر قانونی بھرتیوںکی تحقیقات شروع کرتے ہوئے محکمہ آرکیالوجی کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ گزشتہ روز نیب خیبر پختون کی ٹیم نے محکمہ آرکیالوجی اور پشاور میوزیم پر چھاپہ مارکر تمام ریکارڈ تحویل میں لے لیا۔ نیب ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹر عبد الصمد اور سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم سمیت محکمہ اور میوزیم کے دیگر حکام سے متعلق شکایات موصول ہوئی تھیں کہ انہوں نے پشاور میوزیم میں کروڑوں مالیت کے قیمتی نوادرات چوری کئے اور ان کی جگہ نقلی نوادرات رکھے گئے ہیں، جبکہ یہ بھی شکایات ہیں کہ محکمہ آرکیالوجی کے حکام قیمتی نوادرات غائب کرنے میں ملوث ہیں۔ ڈاکٹر عبد الصمد پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں غیر قانونی بھرتیاں کیں اور قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ گزشتہ روز نیب ٹیم نے محکمہ آرکیالوجی سے ریکارڈ تحویل میں لیتے ہوئے ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹر عبد الصمد، سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اور دیگر ملازمین کو طلب کرلیا۔ اس حوالے سے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ اور پشاور میوزیم کے حکام نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان سے 20 سال کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، جو انہوں نے فراہم کر دیا ہے۔ ان بیس برسوں کے دوران میں موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد الصمد کے علاوہ اور بھی کئی لوگ گزرے ہیں۔ لہذا اگر پہلے کوئی نقلی چیزیں تیار کی گئی ہیں تو اس حوالے سے تحقیقات ہوں گی۔ اگر محکمہ آثار قدیمہ کوئی چیز چھپانا چاہتا ہے تو ریکارڈ ہی نہیں دیتا۔ ادھر ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تخت بھائی، لوئر دیر، سوات اور چارسدہ کے میوزیم کی بھی تحقیقات کی جائیں گی تاکہ تمام صورتحال سامنے آ جائے۔ کیونکہ چار سدہ گندھارا تہذیب کا مرکز رہا ہے اور گندھارا تہذیب کے کئی آثار چارسدہ میں موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتی اشیا بھی یہاں موجود تھیں۔ اسی طرح تخت بھائی اور سوات بھی بدھ تہذیب کا مرکز رہے ہیں اور کوریا سے لیکر جاپان اور تبت کے لوگ یہاں پر عبادت کیلئے آتے تھے، لیکن شدت پسندی کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا تھا، جو اب پھر شروع ہوگیا ہے۔ اسی طرح لوئر دیر جہاں پر ہندو تہذیب کے آثار پائے جاتے تھے اور چکدرہ میوزیم میں یہ آثار موجود تھے، انہیں بھی شدت پسندی کے دوران محفوظ جگہ پر منتقل کیاگیا تھا۔ اس منتقلی کے دوران ملک کو کروڑوں مالیت کے تاریخی نوادارت سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی۔ لہذا ذرائع کے بقول صرف پشاور میوزیم کی تحقیقات سے کچھ نہیں نکلے گا۔ جب تک ان تمام علاقوں کے میوزیم یا مراکز کی تحقیقات نہیں کی جاتیں جہاں اس منتقلی کے دوران گڑ بڑ کی گئی۔
٭٭٭٭٭