فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کیخلاف نئی دستاویزات پیش
اسلام آباد(خبرنگار خصوصی/مانیٹرنگ ڈیسک)احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کو نواز شریف کے خلاف نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد نیب نے اضافی دستاویزات احتساب عدالت میں پیش کردیں، جن میں یو کے سینٹرل اتھارٹی کو لکھے گئے خطوط اور ملنے والے جوابات شامل ہیں۔ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکلاء اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا،اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت نے سیکیورٹی خدشات کے باعث نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔دوران سماعت نئی دستاویزات پیش کرنے کی نیب کی درخواست پر دلائل دیئے گئے۔ نواز شریف کے وکیل نے درخواست کے خلاف اپنے دلائل میں کہا کہ نیب کے ظاہر شاہ نے یوکےسینٹرل اتھارٹی کے ساتھ خط و کتابت کی تھی، ظاہر شاہ عدالت میں گواہ کےطور پر پیش ہو چکے ہیں، ان کی گواہی کے ساتھ یہ دستاویزات کیوں پیش نہیں کی گئیں۔ اگر یہ دستاویزات پیش کرتے ہیں تو ساتھ متعلقہ گواہ کو بھی پیش کریں۔خواجہ حارث کے اعتراض پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہم نے ضمنی ریفرنس میں لکھا ہے کہ خطوط کا جواب آنے پر دستاویزات دیں گے۔عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ 8 ماہ کی تاخیر سے کیوں یہ دستاویزات پیش کی جا رہی ہیں، نیب نے نہیں بتایا کہ ان دستاویزات سےفلیگ شپ کے تفتیشی کا کیا تعلق ہے؟ بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کے خلاف نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی۔دوران سماعت نواز شریف کے وکلاء اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء آدھا آدھا گھنٹہ ریکارڈ دیکھ کر جواب لکھواتے رہے ہم نے اعتراض نہیں کیا، ہماری باری نیب کو پیٹ میں درد ہوجاتا ہے، یہ وہ پراسیکیوٹر ہیں جو باہر جا کر میڈیا پر بات کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ نیب کیسز میں پریکٹس رہی ہے کہ ملزم کو سوالنامہ دیا جاتا ہے، میڈیا سے معلوم ہوا نیب کے پاس سوالنامہ موجود ہے، اگر خبر غلط ہے تو میں الفاظ واپس لوں گا، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ آپ ذاتی حملے کررہے ہیں، ویڈیو سے ثابت کریں میں نے کون سی گالی دی ہے، ہم قانون پر عمل کریں گے، فاضل جج نے مداخلت کرتے ہوئے کہا یہ لڑائی والی بات نہیں اب ختم کریں۔خواجہ حارث نے کہا مستند ذرائع کے مطابق سوالنامہ پراسیکیوشن کو دیا جا چکا ہے، نیب کیسز میں پریکٹس رہی ہے کہ ملزم کو سوالنامہ دیا جاتا ہے، پیشگی سوالنامے میں سوالات کے علاوہ بھی عدالت جو پوچھنا چاہے پوچھ سکتی ہے۔جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 342 کے بیان کا مقصد ہوتا ہے، عدالت نے ملزم کے بیان سے نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے، اگر پہلے سوالنامہ دیا جائے تو 342 کے بیان کا مقصد ختم ہو جاتا ہے، اس طرح تو ہم اپنے گواہوں کو بھی تیاری کرا کے لے آتے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا ملزم کو پیشگی سوالنامہ دینے پر ہمارے بڑے سنجیدہ اعتراضات ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا پھر ہمارا بھی بڑا سنجیدہ اعتراض ہے۔جج ارشد ملک نے اس موقع پر کہا آج اس معاملے کو حل کر لیتے ہیں، لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے، تفتیشی افسر کا بیان مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوشن نے شواہد مکمل کرنے میں 20 دن لگائے۔خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے دس والیم ہیں اوپر سے 8 والیم عبوری اور ضمنی ریفرنسز کے بھی ہیں ۔دوسری جانب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 342 کے بیان میں پیشگی سوالنامہ دئیے جانے کی استدعا بھی منظور کرلی ہے جس کے تحت العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو پہلے پچاس سوال دیئے جائیں گے۔ کیس کی مزید سماعت پیر کو ہوگی۔