احمد خلیل جازم
گجرات سے بیس پچیس میل دور شمال کی جانب قدیم قصبہ ٹانڈہ ہے جس سے ایک سڑک ، ایک اور قدیم قصبے موٹا جا نکلتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قصبہ موٹا، ٹانڈہ سے بھی قدیم ہے اور تقسیم سے قبل یہ سارا علاقہ مسلمانوں کا تھا۔ جبکہ ٹانڈہ سکھوں کا گڑھ تھا، موٹا اور ٹانڈہ دونوں جڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر سے تجارتی قافلے آتے جاتے ٹانڈہ میں قیام کرتے تھے۔ ٹانڈہ سے کچھ کلومیٹر دورقصبہ موٹا میں ایک نو گز لمبی قبر ہے جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حضرت مرطوشؑ، نقیب حضرت موسیٰ ؑ کا مزار ہے ۔مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ ’’محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق موٹا کے قدیم قصبہ ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔‘‘ یہ قصبہ بلندی پر واقع ہے اور ایک ٹیلے پر اس کی آبادی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قدیم گائوں میں ٹیلوں پر ماضی میں کسی تباہ حال بستی کے آثار ملتے رہتے ہیں۔ موٹا کے قریب ہی بننے والے ایک چھوٹے نالے کے کنارے سفید رنگ کے سنگ مرمر سے تعمیر شدہ اس مزار کے کے ساتھ نہ صرف ایک بڑی جامع مسجد تعمیر کردی گئی ہے بلکہ یہاں قائم مدرسے میں سیکڑوں کی تعداد میں بچے دینی تعلیم سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مزار کے بیرونی دروازے کے اندرونی جانب ماتھے پر ایک چھوٹی سے تختی نصب ہے جس پر ’’سن وفات 3847، حضرت مرطوشؑ نقیب حضرت موسیٰؑ‘‘ لکھا ہوا ہے، اس پر ھجری یا عیسوی کی نشان دہی نہیں کی گئی۔
مقامی افراد شیخ ضیا اور احسان فیصل کا کہنا تھا کہ یہاں مزار کی تعمیر سے قبل بہت بڑا اور گھناجنگل ہوا کرتا تھا۔ اولیائے کرام اس جنگل میں عین اسی جگہ پر آکر کئی کئی ماہ تک عبادت کیا کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو اس قبر کے بارے معلوم نہ تھا اور نہ ہی کسی نے اس کی نشان دہی کی تھی۔ اس قبرکی نشان دہی سب سے پہلے حافظ شمس الدین آف گلیانہ نے اپنی کتاب انوار الشمس میں کی کہ یہاں پر اللہ کے نبی حضرت مرطوش ؑ آرام فرما رہے ہیں۔ موٹا میں نہ صرف حضرت مرطوشؑ کا مزار ہے بلکہ اور بھی اللہ کے برگزیدہ لوگ اس قصبے میں آرام فرما رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ولی اللہ آتے جاتے رہتے تھے اور بعض کی یہاں تدفین بھی ہوئی۔ اسی قصبہ کے ساتھ ایک بزرگ مدفون ہیں جو’ پہنچ پیر‘ کے نام سے معروف ہیں اور وہاں بھی خلق خدا حاضر ہوتی ہے۔ اسی طرح اس قصبے سے متصل ٹانڈہ میں بھی ایک نوگز لمبی قبر ہے، صاحب مزار کو ظاہر ولی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جن کے بارے میں ایک قدیم دعویٰ سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے کہ ظاہر ولی کو فیض بھی حضرت مرطوش ؑ سے ملا۔ دعوے کے مطابق پرانے زمانے میں ایک سکھ کو کوڑھ کا مرض لاحق ہوگیا تھا، اس نے بھیک مانگنی شروع کردی۔ اس کے خواب میں ظاہر ولی نے آکر کہا کہ میری خانقاہ سے آٹا لے کر آئو اور اسے اپنے کوڑھی ہاتھوں سے گوندھ کر اس کی روٹیاں پکا کر لوگوں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن اس سے روٹیاں کوئی لینے والا نہیں تھا۔سکھ مزار پر حاضر ہوا اور صاحب مزار سے رو رو کر فریاد کی میری ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی کھانا تو درکنار کوئی لینا بھی پسند نہیں کرتا۔ رات کو صاحب مزار نے خوب میں آکر حکم دیا کہ اب روٹیاںپکا کر کتوں کے آگے ڈال دو۔ سکھ نے اگلے روز روٹیاں پکا کر کتوں کے آگے ڈال دیں۔ کچھ عرصے بعد اس کا مرض جاتا رہا اور وہ بالکل تندرست ہوگیا۔ اس وقت قصبے کے لوگوں نے اس مزار کے باہر چاردیوار ڈال کر یہاں منتیں مرادیں مانگنا شروع کردیں جس کا فیض آج بھی جاری ہے۔ لوگ ظاہر ولی کو حضرت مرطوشؑ اور حضرت قنبیط ؑ کے فیض کا امین کہتے ہیں۔ مزار پر علاقے بھر سے لوگ مرادیں مانگنے آتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں۔ جس وقت ہم مزار پر پہنچے اس وقت مزار سے متصل مسجد میںجمعہ کی نمازکی ادائیگی کے بعد لوگ مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ موٹا قصبے کے اکثر لوگ یہاں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور بعد ازاں صاحب مزار کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد رخصت ہوتے ہیں۔ حیران کن طور پر مزار پر کوئی متولی موجود نہ تھا۔ جب لوگوں سے معلوم کیا تو انہوں نے امام مسجد کے بارے بتایا کہ وہی آپ کو اس بارے معلومات دے سکتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں داخل ہوئے، تو سامنے مسجد تھی جبکہ مزار کی دائیں جانب بیرونی دیوار کے ساتھ کچھ قدیم قبریں دکھائی دیں جو کہ چھوٹے بڑے چبوتروں پربنائی گئی تھیں۔ مزار میں داخل ہوئے تو داخلی دروازے پرکچھ نہیں لکھا تھا، جبکہ اسی دروازے کے اندرونی سمت آپ کا نام اور سن وفات درج تھا۔ اندرونی دروازے میں جیسے ہی داخل ہوں تو سامنے ایک قبر دکھائی دیتی ہے جو بقول ضیا شیخ، مزار کے پہلے متولی نورالدین کی ہے۔ اندر ایک بڑے کمرے میں نو گز لمبی موجود تھی، تما م مزار کی تعمیر میں سفید سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ اگرچہ اب مزار کی حالت، فقط بیرونی حالت ایسی نہیں تھی کہ جسے دیکھ کر گمان کیا جاتا کہ اندرونی حالت ایسی عمدہ ہوگی۔ لیکن باہرکی نسبت اندرونی عمارت کافی خوبصورت اور صاف شفاف دکھائی دی۔ مزار کے چاروں جانب روشنی اور تازہ ہوا کے لیے کھڑکیاں رکھی گئی ہیں ۔ اسی مزار سے متصل مغرب کی جانب ایک پرانی چھوٹی سی مسجد بھی واقع ہے، جس کے بارے میںتفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ مقامی محقق آصف مرزا کا کہنا تھا کہ ’’حضرت مرطوشؑ کا عرس ہر برس ہاڑ کے مہینے میں منایا جاتا ہے اورپوری دنیا سے ان دنوں لوگ مزار پرحاضری دینے آتے ہیں۔ ان تمام عقیدت مندوں کے علاوہ یہاں ملک بھر سے نامور قوال بھی حاضر ہوکر قوالی کرتے ہیں اور مرادیں پاتے ہیں۔ صاحب مزار کو مقامی لوگ ’پیر ہرا‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہر جمعرات اور جمعہ کے روز کافی تعداد میں لوگ حاضری دیتے ہیں۔ جبکہ باقی دنوںمیں بھی لوگ اپنی مرادیں مانگنے آتے رہتے ہیں۔ مقامی لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ حافظ شمس الدین کے بعد حضرت پیر نصیب علی شاہ صاحب بھی موٹا گائوں میں باقاعدگی سے حاضری دیتے اور انہیں بھی یہیں سے فیض حاصل ہوا۔ پہلے متولی سائیں نور الدین پیر نصیب علی شاہ کے مرید خاص تھے، جب پیر نصیب علی شاہ کو یہاں سے فیض نصیب ہوا تو انہوں نے اپنے مرید خاص کو حکم دیا کہ اب قبر مبارکہ کو اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چنانچہ اس وقت نور الدین نے یہاں قیام کیا اور بعد ازاں نہ صرف انہوں نے مزار کی تعمیر شروع کی بلکہ یہاں پر دینی درس و تدریس کا کام بھی شروع کر دیا۔
حضرت مرطوشؑ کے ایک اور ہم نام کے بارے میں ’’آئینہ گجرات‘‘ نامی کتاب میں مصنف ایم زمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’گجرات اور آزاد کشمیر کی سرحد پر واقع ایک قصبے ککرالی کے قریب ایک ٹبے پر نو گز لمبی قبریں موجود ہیں۔ اگرچہ قریبی گزرتا نالہ بھنڈر اس اس ٹبے کو کاٹتا جارہا ہے جس وجہ سے اس ساتھ موجود ایک قدیمی قلعہ برباد ہورہا ہے۔ لیکن جنوب کی جانب ایک قصبہ دارا کے قریب ایک اونچائی پر نو گز لمبی ایک اور قبر ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت مرطوشؑ مدفون ہیں۔ یہ بھی حضرت موسیٰ ؑ کی اولاد سے بتائے جاتے ہیں۔‘‘ اس قبر کے بارے میں مزید کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ قبر کس نے دریافت کی ، یہ نبی تھے، مرسل تھے، اصحاب تھے یا پیغمبر، کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ صرف نام پر علیہ السلام لکھا ہوا ہے، جس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ بھی نبی تھے۔ اسی طرح مرطوش نام کی دیگر ایک دو قبروں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے اور یہ نشان دہی مختلف علاقوں میں حافظ شمس الدین نے اپنی کتاب انوار الشمس میں کی ہے۔ موٹا کے گھنے جنگل میں جہاں جنگلی جانوروں کی بہتات ہوتی تھی۔ وہاں حضرت مرطوشؑ کی قبر کس طرح دریافت کی گئی؟ یہ بہت ہی منفرد داستان ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭