کراچی(رپورٹ: راؤافنان)سندھ یونیورسٹی میں کرپشن ، سہولتوں کی عدم فراہمی ،5ہزار طلبہ کو ہاسٹل میں کمرے نہ ملنے کے خلاف طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے وائس چانسلرکی برطرفی کامطالبہ کر دیا ۔تفصیلات کے مطابق سندھ یونیورسٹی میں کرپشن کے خلاف اساتذہ،افسران و ملازمین کے بعد طلبہ بھی سڑکوں پر نکل آئے اور کئی روز سے حیدرآباد پریس کلب سمیت جامعہ میں سراپا احتجاج ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ سندھ یونیورسٹی نے سال 2019کے لئے 7ہزار سے زائد نشستوں کے لئے گزشتہ روز اپنی ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے ٹیسٹ لیا،جس میں 24ہزار سے زائد امیداروں نے حصہ لیا ۔ معلوم ہوا ہے کہ بیچلرز کی 5800،ماسٹرز کی ہزار سے زائد نشستیں ہیں،جبکہ ہر شعبے میں 20فیصد سیلف فنانس کی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ داخلہ ٹیسٹ میں 25فیصد نمبر داخلے کی شرط ہے۔ طلبہ کے مطابق ایوننگ پروگرام سیلف فنانس اسکیم کے تحت ہی متعارف کرایا گیا تھا ، تاہم صبح کی شفٹ میں بھی 20فیصد نشستیں سیلف فنانس اسکیم کے لئے مختص کرنا غریب طلبہ کی حق تلفی ہے، جبکہ کامیاب طلبہ کیلئے ہاسٹل میں گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ 5ہزارطلبہ ہاسٹل میں کمروں سے محروم ہیں ۔معلوم ہوا ہے کہ مین کیمپس میں سالانہ 5ہزار سے زائد داخلے دیئے جاتے ہیں ، جبکہ ہاسٹلز میں کمروں کی عدم دستیابی سے نجی ہاسٹل کی چاندی ہوگئی ہے۔ معلوم ہوا ہےکہ کل 8 ہاسٹلز میں سے ایک ہاسٹل سندھ پولیس اوردوسرا ہاسٹل مہران یونیورسٹی کے زیر استعمال ہے ، جنہیں تاحال خالی نہیں کرایا جا سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بوائز ہاسٹل میں 2ہزار کے بجائے ساڑھے 3ہزار سے زائد طلبہ رہائش پذیر ہیں۔ اسی طرح گرلز ہاسٹلز میں 800طالبات کی گنجائش ہے جبکہ ہزار سے زائد رہائش پذیر ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ سندھ یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال فیسوں میں اضافہ کرنے کا جواز ہی یہی بتایا گیا تھا کہ طلبہ کو سہولتیں فراہم کی جائیں گی ، جس میں انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہے اور اب مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے اسکینڈل منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں ،جس کی تحقیقات جاری ہے۔ طلبہ نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر وائس چانسلر کو برطرف کیاجائے۔ واضح رہے کہ ایک ٹرسٹ کے تحت خیراتی کھانادینے اور فیسوں میں اضافہ کرنے اور جامعہ انتظامیہ کی کرپشن کے خلاف اساتذہ، افسران، ملازمین اور طلبہ و سول سوسائٹی متعدد بار احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انتظامی افسر نے بتایا کہ ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کے پاس آؤٹ ہونے کی شرح،ہر سال ہونے والے داخلوں کے مقابلے میں 20فیصد ہے ، جس کی وجہ سے رہائش کے سنگین مسائل ہیں اور ہر سال آنے والے طلبہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاس نہ ہونے والے طلبہ و طالبات کو ہاسٹل کے ہال میں چارپائیوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ یا بعض طلبہ پرائیوٹ ہاسٹل کا رخ کرلیتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ہاسٹل میں کمرہ حاصل نہ کرنے والے متاثرین طلبہ کی تعداد 5ہزار سے زائد ہے۔خبر پر مؤقف کے لئے شیخ الجامعہ فتح محمد برفت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم نمبر بند رہا۔