آخری قسط
نمائندہ امت
چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون کے دوران تین سو سے زائد ایسی خواتین زیر حراست ہیں، جن کے ساتھ پاکستانی تاجروں نے شادیاں کیں۔ ’’امت‘‘ کو ایسے پاکستانی تاجروں کا بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی چینی بیویاں ہی نہیں، بلکہ ان کے بچے بھی چینی سیکورٹی اہلکار لے گئے ہیں۔ خیبر پختون کے رہائشی گل خان اور نصیر خان (دونوں فرضی نام) اس وقت بھی بیجنگ میں ہیں اور اپنے بیوی بچوں سے ملنے کیلئے بے چین ہیں۔ وہ پاکستانی سفارتخانے کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ چینی حکام سے ان کی اب تک کی ملاقاتیں بھی بے سود رہی ہیں۔ تاہم وہ اپنے اہلخانہ کے بغیر واپس پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں، باوجود اس کے کہ چینی حکومت کو ان کا وہاں رہنا پسند نہیں۔ گل خان اور نصیر خان کی کہانی پیش کی جا رہی ہے۔
ایک طویل سفر کر کے بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانے تک پہنچنے والے گل خان کا ’’امت‘‘ سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ… ’’مجھے چین میں پندرہ سال ہو چکے ہیں۔ میرا کاروبار گارمنٹس اور پتھروں کا ہے۔ میں چین سے گارمنٹس پاکستان لاکر فروخت کیا کرتا، جبکہ پاکستان سے پتھر وغیرہ لا کر چین میں فروخت کرتا۔ 2008ء کے دوران میں نے چین کی ایک مسلمان خاتون سے شادی کی تھی۔ اس وقت کسی قسم کی روک ٹوک نہیں تھی اور ہم میاں بیوی خوش حال زندگی گزا ر رہے تھے۔ میں اپنی بیوی کے ہمراہ ہر سال ہی پاکستان جاتا تھا اور کچھ عرصہ گزار کر واپس چلا آتا تھا۔ اس دوران ہمارے تین بچے ہوئے اور اب ان کی عمریں چار، چھ اور سات برس کی ہیں۔ یہ سب چین ہی میں پیدا ہوئے اور چین ہی کے اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ 2016ء میں میں نے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ عمرہ بھی ادا کیا تھا۔ لگتا ہے کہ اس عمرے کے بعد ہی ہم چینی حکام کی نظروں میں آئے۔ کیونکہ جب ہم عمرہ سے واپس آئے تو انہوں نے میری بیوی کو حکم دیا کہ وہ روزانہ شام کو اپنا کام ختم کرنے کے بعد دو سے تین گھنٹے کے لئے ری ایجوکیشن سینٹر میں آئے۔ ہم نے اس ہدایت کو معمولی سمجھا اور میری بیوی نے وہاں جانا شرو ع کر دیا۔ مگر کبھی کبھی ناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ 2017ء آگیا اور روٹین جاری رہی۔ غالباً یہ ناغے چینی حکام کو کھٹکے کہ ایک دن جب میری بیوی گئی تو واپس نہیں آئی۔ معلوم کیا تو بتایا گیا کہ اب اسے ری ایجوکیشن سینٹر ہی میں رہنا ہوگا۔ میں نے بہت ہاتھ پیر مارے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ بیوی کو حراست میں لئے جانے کے تین ماہ بعد بچے اسکول گئے تو وہ بھی واپس نہیں آئے۔ جب اسکول والوں سے پوچھا جاتا تو وہ کہتے کہ اس بارے میں حکام سے بات کرو۔ حکام سے بات کرتا تو کہتے کہ انتظار کرو۔ بیوی بچوں کے انتظار میں دو برس گزر چکے ہیں۔ کاروبار پہلے ہی ختم ہو چکا تھا، اب گھر سے بھی بے دخل کر دیا گیا ہوں۔ اگر میں اس وقت چین میں موجود ہوں تو صرف اپنے بیوی بچوں کے لئے کہ ان کو چھوڑ کر میں کسی صورت پاکستان واپس نہیں آسکتا۔ میں حکومت پاکستان اور چینی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ میرے بیوی بچوں کو چھوڑا جائے‘‘۔
نصیر خان نے اپنی داستان اس طرح سنائی کہ… ’’میں چین پڑھنے کیلئے آیا تھا۔ دوران تعلیم میری ملاقات ایک مسلمان خاتون سے ہوئی، جو ریسٹورنٹ میں کام کرتی تھی۔ میں اس ریسٹورنٹ سے صرف اس لئے کھانا کھانے جاتا تھا کہ اس میں مسلمان خاتون کام کرتی ہے۔ اسی دوران ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے گئے اور ایک روز ہم نے اسلامی اور چین کے طریقہ کار کے مطابق شادی کرلی۔ ہماری شادی 2009ء میں ہوئی تھی۔ چین میں تعلیم مکمل کرنے اور شادی کے بعد اپنی بیوی کے مشورے سے میں نے بزنس کنسلٹیشن شروع کردی۔ 2015ء تک حالات اچھے تھے اور اس وقت تک میری بیوی پاکستان نہیں آئی تھی۔ اسی برس میں نے پاکستان میں اپنے خاندان والوں کو بھی بتادیا کہ میں نے چین میں شادی کرلی ہے اور میرے بچے بھی ہیں۔ میرے خاندان نے اس شادی کو قبول کرلیا اور کہا کہ بچوں کو پاکستان لائوں۔ اسی سال میں بچوں کو پاکستان لے کر گیا اور وہاں ہم سب نے بہت اچھا وقت گزارا اور پھر واپس چین آگئے۔ زندگی خوش و خرم گزرتی رہی۔ یہ 2017ء تھا جب ہم اپنے گھر میں تھے کہ چینی حکام آئے اور انہوں نے میری بیوی کا پوچھا اور پھر بغیر کوئی بات بتائے بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ میں نے بہت شور کیا، لیکن انہوں نے توجہ دی اور نہ کوئی اور مدد کو آیا۔ اس کے بعد سے میں اپنے بیوی بچوں سے نہیں مل سکا۔ کچھ پتا نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں اور ان پر کیا گزر رہی ہے۔ میرا سارا دن صرف اور صرف اپنے بچوں کی تلاش میں گزرتا ہے اور میں اپنے بچوں کے بغیر پاکستان بھی نہیں جاسکتا۔ جبکہ میری کوئی مدد بھی نہیں کر رہا ہے‘‘۔ نصیر خان نے بھی پاکستان اور چین کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ انہیں ان کے بیوی بچے حوالے کئے جائیں تاکہ وہ واپس جا سکیں۔
Prev Post