محمد قاسم
صورتافغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کی میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو مشترکہ صدارتی امیدوار بنانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ دوسری جانب کابل حکومت نے صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کے امریکی مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ جس پر امریکہ نے صدارتی الیکشن میں سیکورٹی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ طالبان سے صلح سے قبل صدارتی انتخاب کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ کہ طالبان سے امن معاہدے کی صورت میں حکمت یار صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کیلئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے کہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے تک صدارتی انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے اور جب طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہو جائے تو اس کے بعد طالبان کے ساتھ مل کر ایسا صدارتی امیدوار سامنے لایا جائے جو افغانستان کو متحد کرسکے اور طالبان کو بھی حکومت میں شامل کرکے افغانستان کے آئین میں بھی تبدیلی لائے۔ تاہم ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ نے زلمے خلیل زاد کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدارتی الیکشن وقت پر ہوں گے۔ صدارتی انتخابات کے بعد بھی امن معاہدہ ہوسکتا ہے۔ ’’امت‘‘ کے باوثوق ذرائع کے مطابق افغان صدر اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان خفیہ طور پر تمام معاملات طے ہو چکے ہیں اور اب آخری مرحلے میں معاہدے پر دستخط باقی ہیں۔ یہ خفیہ مذاکرات تقریباً ایک سال سے جاری تھے اور اب ان پر عملدرآمد کا وقت آگیا ہے، اسی لئے زلمے خلیل زاد کو نمائندہ خصوصی تعینات کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد کو پشتو، دری اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے۔ افغان نژاد ہونے کی وجہ سے وہ طالبان کی پشتو میں کی جانے والی بات سمجھ بھی سکتے ہیں اور امریکیوں کو بھی ان کی زبان میں سمجھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مکمل معاہدے کیلئے زلمے خلیل زاد کو نمائندہ مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم امریکی فوج کے چار اعلیٰ عہدیدار بھی مذاکرات میں شریک ہوتے رہتے ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز صدر ڈاکٹر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حکمت یار کے ساتھ مذاکرات میں بھی شرکت کی تھی۔ حکمت یار کے ساتھ ملاقات کے دوران امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیدار نوٹس لیتے رہے، جبکہ زلمے خلیل زاد اور حکمت یار نے کھل کر بات کی۔ امریکی حکام نے افغان حکومت سے کہا ہے کہ اگر اس نے انتخابات ملتوی نہ کئے تو وہ صدارتی الیکشن کے دوران سیکورٹی فراہم نہیں کریں گے۔ کیونکہ صدارتی الیکشن کے بعد اگر طالبان سے اہم معاہدہ ہو بھی جائے تو اس میں پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن اگر امن معاہد ے کے بعد ایک ایسا صدارتی نمائندہ سامنے لایا جائے جو طالبان کو قابل قبول ہو تو افغانستان میں امن معاہدے پر عملدرآمد آسان ہوگا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان صدارتی امیدواروں پر تبادلہ خیال کے دوران طالبان نے اپنا صدارتی امیدوار اس مرحلے پر کھڑا کرنے سے معذرت کی ہے۔ تاہم معاہدے کے بعد حکمت یار کو صدارتی انتخابات میں متفقہ امیدوار تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اس کے علاوہ بطور صدارتی امیدوار حنیف اتمر کی نامزدگی پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے اور دیگر رہنمائوں کو مسترد کر دیا ہے، جس میں شمالی اتحاد کے کئی رہنما شامل ہیں، کیونکہ وہ طالبان کے ساتھ لڑائیوں میں شامل رہے ہیں۔ واجح رہے کہ افغان طالبان اور حکمت یار کی حزب اسلامی کے درمیان کبھی لڑائی نہیں ہوئی، اس لئے طالبان ان کے ساتھ نہ صرف حکومت میں کام کر سکتے ہیں بلکہ افغانستان میں امن معاہدے پر عملدرآمد بھی کراسکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول زلمے خلیل زاد نے حکمت یار کو یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ امن معاہدے کی صورت میں وہ افغانستان کے صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔ امریکی حکام گلبدین حکمت یار کو صدارتی امیدوار صرف طالبان کی وجہ سے قبول کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل حزب اسلامی کی شوریٰ نے حکمت یار کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے کی تجویز دی تھی۔ تاہم حزب اسلامی کے بعض رہنمائوں نے حکمت یار کو بتایا تھا کہ امریکہ انہیں صدارتی امیدوار قبول نہیں کرے گا، اس لیے حزب اسلامی کے سربراہ ایسے امیدوار کو سامنے لائیں جو ان کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرے۔ اس حوالے سے حزب اسلامی اور حنیف اتمر کے درمیان تمام معاملات طے پا گئے تھے۔ تاہم اب طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے تناظر میں افغانستان کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور اب شمالی اتحاد سمیت کئی جنگجو گروپوں کا کردار افغانستان میں ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والا ہے۔ جبکہ طالبان اس مرحلے پر صدارتی الیکشن اس لئے نہیں لڑنا چاہتے کہ انتخابات میں ناکامی سے منفی پیغام جائے گا۔ اس لئے افغان طالبان نے حکمت یار کے ساتھ نہ صرف کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے بلکہ انہیں مشترکہ صدارتی امیدوار بنانے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔ تاہم اگر حکمت یار نہ مانے تو حنیف اتمر کو بھی طالبان نے صدر قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے بہت سے رہنمائوں کا تعلق ماضی میں حکمت یار گروپ کے ساتھ رہا ہے۔ جبکہ اس وقت فیلڈ میں بھی کئی کمانڈر ایسے ہیں جو حکمت یار کے سیاسی معاہدے کے مخالف تھے اور وہ افغان طالبان کے ساتھ شامل ہو کر لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک اور حزب اسلامی کے درمیان ماضی میں قریبی تعلق کی وجہ سے حقانی نیٹ ورک بھی حکمت یار کو صدر بنانے پر راضی ہے۔ تاہم افغان حکومت میں شامل شمالی اتحاد اور اشرف غنی کا گروپ، جس میں سابق کمیونسٹ بھی شامل ہیں، وہ افغان طالبان کے ساتھ معاہدے سے قبل صدارتی انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تاکہ طالبان کو بعد میں چند صوبوں کی گورنری دیدی جائے۔ جبکہ حکمت یار طالبان کو حکومت میں بھرپور حصہ دینے کے حامی ہیں۔
٭٭٭٭٭