نجم الحسن عارف
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے مبینہ بدزبانی کرنے پر ان کے سینیٹ میں داخلے پر عائد پابندی سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہونے پر خودبخود ختم ہوگئی۔ اگرچہ کہ وفاقی وزیر کی طرف سے چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی رولنگ کے مطابق معافی سامنے آئی اور نہ ہی چیئرمین سینیٹ نے اپنی رولنگ واپس لی۔ تاہم فواد چوہدری پی ٹی آئی کے پہلے وفاقی وزیر ہیں، جن کے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ میں وہ دوسرے وفاقی وزیر رہے۔ رواں سال سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی نے اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے سینیٹ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کی تھی۔ ان پر بدزبانی کا نہیں بلکہ ایوان بالا کو اہمیت نہ دینے اور آرمی چیف قمر باجوہ کے دورہ افغانستان کے بارے میں سینیٹ کو اعتماد میں نہ لینے کا الزام تھا۔ سابق چیئرمین سینیٹ نواز لیگ کی حکومت کے وزرا سے اکثر ناراض رہتے تھے کہ وہ سینیٹ اراکین کے سوالات کے جوابات نہیں دیتے یا تیاری کر کے نہیں آتے ہیں۔ اب یہ دوسرا موقع ہے کہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے بھی ایک وفاقی وزیر کو وہی سزا دی ہے، جو اس سے پہلے رضا ربانی نے دی تھی۔
لیکن جمعہ کے روز سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کئے جانے کے ساتھ ہی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر لگی پابندی ختم اور سزا پوری ہو گئی۔ تاہم فریقین میں سے کسی جانب سے بھی اپنے موقف سے دستبرداری یا پسپائی اختیار نہیں کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تنازعہ سینیٹ کے اجلاس میں چند روز قبل اس وقت پیدا ہوا، جب پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ کے بقول انہوں نے کوئٹہ ایئرپورٹ کی تعمیر و مرمت میں تاخیر پر توجہ دلائو نوٹس پیش کیا کہ ایئرپورٹ کی تعمیر و مرمت میں ابھی تک کیوں کامیابی نہیں ہو سکی ہے، جبکہ اسلام آباد کا اتنا بڑا ایئرپورٹ مکمل ہوگیا۔ اس پر وزیر مملکت علی محمد خان نے جواب دیا اور وجوہات بیان کیں۔ لیکن سینیٹر عثمان کاکڑ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اچانک کھڑے ہو گئے اور انہوں نے محمود خان اچکزئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، جس پر میں نے انہیں روکا۔ اور کہا آپ تو جنرل مشرف کے پٹھو تھے‘‘۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات نے اس سلسلے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ کہنا جرم ہے کہ بلوچستان کو پچھلے دس برسوں کے دوران دیئے گئے پندرہ سو ارب روپے کے بارے میں اس وقت کے حکمرانوں سے سوال پوچھا جائے کہ انہوں نے وہ خطیر رقم کہاں خرچ کی۔ کس کی جیبوں میں گئی۔ جبکہ بلوچستان اور وہاں کے عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ یہ ایسی کون سی غیر پارلیمانی بات یا الفاظ ہیں کہ چیئرمین سینیٹ نے میرے خلاف رولنگ دے دی۔ خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ آنے کے بعد ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو اس بارے میں وزیراعظم عمران خان کی ناراضی کا بتایا۔ جبکہ وزیر مملکت علی محمد خان کے حوالے سے یہ موقف سامنے آیا کہ کابینہ کے اجلاس چیئرمین سینیٹ کا کنڈکٹ زیر بحث ہی نہیں آیا۔ لیکن اس کے باوجود وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اپنے موقف پر قائم رہے اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر پرزور انداز میں وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ بلوچستان کو پچھلے دس برسوں کے دوران 15 سو ارب روپے دیئے گئے، مگر اس پر پوچھے جانے سے کبھی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے کبھی تقدس مجروح ہوتا ہے۔
اس بارے میں وزیراعظم عمران خان نے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے چیئرمین سینیٹ کو سینیٹ معاملات خوشگوار انداز سے چلانے کا پیغام بھجوایا۔ یہ ملاقات تو اچھی رہی تاہم فواد چوہدری کے بارے میں چیئرمین نے اپنی رولنگ واپس لینے کا اعلان کیا اور نہ ہی فواد چوہدری نے معافی مانگنے کا عندیہ دیا۔ تاآنکہ جمعہ کا دن آگیا اور جمعہ کے روز سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ یوں اپنے بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب سے اب تک متفق علیہ نہ بن سکنے والے محمد صادق سنجرانی نے اپنی سخت مخالف جماعتوں کے ہاں بھی نرم گوشہ پیدا کر لیا ہے۔ اس بارے میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ہماری توقع سے بھی بڑھ کر مثبت اور جاندار کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے فواد چوہدری کے خلاف رولنگ دے کر اپنا قد بھی بڑھا لیا ہے‘‘۔ اس بارے میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے مرکزی رہنما محمد مہدی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سینیٹ کے 284 ویں اجلاس کے دوران وزیر اطلاعات کے خلاف رولنگ دی گئی ہے۔ اس سے اپوزیشن کی اخلاقی فتح ہوئی ہے کہ فواد چوہدری کے سینیٹ میں اختیار کردہ لب و لہجے سے ہر کوئی تنگ تھا۔ اس پر اپوزیشن کے ارکان پہلے بھی احتجاج کرتے رہے۔ لیکن وزیر موصوف نے اپنے رویے میں کوئی بہتری پیدا کی نہ ایسا عندیہ دیا۔ تاہم اب چیئرمین سینیٹ نے وزیر اطلاعات کا منہ بند کرنے کی کوشش کی۔ اس سے اپوزیشن کا موقف بھی تاخیر سے ہی لیکن عملاً تسلیم ہو گیا ہے۔ امید ہے اس کا اثر آنے والے دنوں میں ہوگا اور پارلیمان کے بارے میں کابینہ کے ارکان کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا‘‘۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں بات کرنے سے روکنا غیر جمہوری رویہ ہے۔ لگتا ہے بعض وزرا کی یہ باقاعدہ ذمہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی آواز کو دبائیں اور ایشوز پر بات نہ کرنے دیں۔ لیکن اب ان وزرا کو محتاط ہونا پڑے گا۔
٭٭٭٭٭