شیخ سعدی کے مزار کے گرد گھوم پھر کر اور وہاں تصویر کشی کرنے کے بعد میں بذریعہ ٹیکسی حافظ شیرازی کے مزار پر جا پہنچا اور یہاں بھی وہی پر نور اور روح کو مسحور کردینے والا ماحول پایا۔ مزار کے قریب زمین کے فرش پر نصب سنگ مرمر کے ایک بڑے کتبے پر ایران ان کے عظیم شاعر خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی غزل سرائے بزرگ زبان فارسی کے بارے میں، ان کے کلام کے بارے میں اور ان کی قبر مبارک کے بارے میں کچھ تعارفی کلمات اور حافظ کے دو شعر، ایک شروع میں اور دوسرا آخر میں درج ہیں۔ شیخ سعدی شیرازی اور حافظ شیرازی کے مزاروں کی شان و شوکت ان کی خوبصورتی، دیکھ بھال کا معیار اور ان کی رونق ایک ہی جیسی ہے۔ ایک فرق البتہ یہ ہے کہ شیخ سعدی کا اصل مزار یا قبر مبارک ایک دور سے نظر آنے والے بلند نیلے گنبد کی سائڈ میں ایک کمرے میں بند ہے جبکہ حافظ کی قبر ایک بڑے اور خوبصورت گنبد کے نیچے سب کے سامنے کھلے میدان میں ہے۔ میرا حقیر خیال ہے کہ جو فرق ان دونوں عظیم شاعروں کی زندگیوں میں تھا اور جو دونوں کے فلسفہ ء زندگانی میں تھا، وہی فرق دونوں کی قبروں میں اور قبروں کے گرد طاری ماحول میں بھی نمایاں ہے۔ حافظ خاموش طبیعت، نرم خو، مسکین، تنہائی پسند، فلسفیانہ انداز میں تدبر کرنے والا اور جو دیکھا اور محسوس کیا، اسے پورے خلوص اور مقدور بھر صحت و درستگی کے ساتھ اشعار کی شکل میں ڈھال دینے والا نڈر اور بے باک شاعر تھا۔ خلوص، سادگی، بے ساختگی اور استغنا اس کی ہر حرکت اور اس کے منہ سے نکلے ہر لفظ سے عیاں تھا۔ جہاں تک راقم الحروف کی معلومات کا تعلق ہے، حافظ نے کبھی کسی بادشاہ کا قصیدہ لکھا نہ وہ کسی بادشاہ یا حاکم کے دربار میں خود سے کبھی گئے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی پوری زندگی بڑی تنگدستی اور فاقہ مستی میں گزری۔ تیمور لنگ جسے جابر امیر کے سامنے بھی اور اپنی عمر کے آخری حصے میں جبکہ ان کی آنکھیں بہت کمزور ہوگئی تھیں اور وہ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی نہ پہچان سکتے تھے، اپنے پرانے اور بوسیدہ کپڑوں میں گئے۔ مگر اس کے سامنے ایسے بیٹھے جیسے اپنے کسی بے تکلف دوست کے سامنے بیٹھے ہیں اور اس کے سوالات کا جواب بھی پورے سکون اور اطمینان سے اس طرح دیا جیسے وہ اپنے محلے کی مسجد کے امام کے سوالات کا جواب دے رہے ہوں۔ انہوں نے اس وقت بھی اپنے اوپر کسی پریشانی، بے چینی یا خوف کا غلبہ نہ ہونے دیا جب امیر تیمور نے ان کے کسی جواب سے بظاہر برہم ہوکر ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اور دنیا جانتی تھی اور حافظ بھی جانتے تھے کہ امیر تیمور اپنے مجرموں کو صرف ایک ہی سزا دیتا تھا اور وہ تھی ’’گردن زنی‘‘۔ اور اس وقت تو حافظ نے اپنی بہادری، بیبا کی، فولادی اعصاب کا مالک ہونے کی اور حاضر دماغی کی انتہا کردی جب امیر تیمور نے بظاہر برہم ہوکر ان سے سوال کیا کہ کیا یہ شعر تمہارا ہے؟
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
(اگر وہ ترک دو شیزہ میرا دل اپنے ہاتھ میں تھام لے)
بخال ابرو اش بخشم سمر قندو بخارا را
(تو میںاس کے ابرو کے تل پر سمر قندو بخارا نثار کردوں)
حافظ کا جواب پورے سکون کے ساتھ اثبات میں تھا۔ امیر تیمور پھر بولا اور ذرا غصے سے بولا کہ اے شمس الدین ہم نے جو شہر بڑے خون خرابے اور اپنے لاتعداد سپاہی کٹوا دینے کے بعد حاصل کئے ہیں انہیں تم ایک لڑکی کے چہرے کے ایک تل پر نثار کئے دیتے ہو؟ اس پر فوری طور پر حافظ نے کچھ نہ کہا۔ بس اپنی شیروانی کے اوپر کے بٹن کھولنے شروع
کردیئے اور جب دو تین بٹن کھل گئے تو نیچے سے اپنی میلی کچیلی اور پھٹی پرانی قمیص باہر نکال کر اور اسے امیر تیمور کو دکھاتے ہوئے بولے کہ:
’’اے امیر انہی غلط بخشیوں نے تو مجھے اس حال پر پہنچا دیا ہے‘‘
اس جواب پر امیر تیمور جیسا قاہر اور جابر حکمران بھی قہقہہ مار کر ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جواب اس تکنیک سے اور اس اطمینان سے صرف اور صرف حافظ شیرازی جیسا حکیم و دانا اور فولادی اعصاب کا مالک انسان ہی دے سکتا تھا۔ (جاری ہے)
Next Post