بیجنگ؍اسلام آباد( امت نیوز) چین میں ایک پاکستانی طالبعلم کو مبینہ طور پر بیچ سڑک قتل کرنے کی لرزہ خیزلیکن بظاہر جعلی ویڈیو نے پاک چین تعلقات میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ جس پر پاکستان میں چینی سفارتخانے جبکہ چین میں پاکستانی سفارتی مشن کے حکام کو پیر کے روز وضاحتیں جاری کرنا پڑ گئیں۔ مذکورہ ویڈیو میں دو افراد ایک شخص کو سڑک کے بیچ گرا کر بظاہر اسے قتل کر رہے ہیں اور ان کے قریب ایک لڑکی آہ و زاری کر رہی ہے۔ ویڈیو کے ساتھ یہ خبر پھیلائی گئی کہ جس شخص کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا وہ پاکستانی طالب علم ہے اور قتل کرنے والے لڑکی کے باپ اور بھائی ہیں۔ طالبعلم کی شناخت اسامہ احمد خان بتائی گئی۔ اس ویڈیو پر بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اس لیے یقین کر لیا کہ چین میں زیر تعلیم اسامہ احمد خان نامی پاکستانی نوجوان کی رواں ماہ ہی موت ہوئی ہے اور ابھی اس کی لاش پاکستان بھی نہیں پہنچی۔ چین کے شہر شن یانگ کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم اسامہ احمد خان کی لاش11نومبر کو ملی تھی اور اطلاعات کے مطابق اسامہ نے خودکشی کی ہے۔ بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانے نے بھی پیر کو تصدیق کی کہ اسامہ خان نے خودکشی کی ہے۔تاہم اس واقعے کو پرتشدد ویڈیو سے جوڑنے کے نتیجے میں سنسنی پھیلی۔ حکام کی وضاحتوں کے باوجود ویڈیو میں دکھائی دینے والے لرزہ خیز مناظر پر کئی سوالات باقی ہیں۔ اسامہ احمد خان کے اہلخانہ نے میت پاکستان پہنچنے تک اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔ چین میں پاکستانی مردوں سے شادی کرنے والی ایغور مسلمان عورتوں کو زبردستی اصلاحی کیمپوں میں رکھنے کی خبریں کئی مہینوں سے زیر گردش ہیں۔ ایسے حالات میں اتوار کو چین میں ’’وی چیٹ‘‘ (WeChat)نامی سوشل میڈیا ایپ پر ایک ویڈیو سامنے آئی۔ یہ ویڈیو جلد ہی چین میں مقیم پاکستانیوں اور دیگر غیرملکیوں کے گروپوں میں پھیل گئی اور وہاں سے فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعے پاکستان میں بھی وائرل ہوگئی۔ ویڈیو میں رات کے وقت ایک سڑک کے تقریبا درمیان میں زیبرا کراسنگ پر دو افراد نے ایک تیسرے شخص کو گرا رکھا ہے اور اس پر تشدد کر رہے ہیں۔ ایک شخص نیچے گرے شخص کے زیریں جسم پر وار کر رہا ہے اور دوسرا سر پر۔ ان کے قریب ایک خاتون بھی ہے جو چیخ و پکار کر رہی ہے۔یہ ایک نسبتا مصروف سڑک ہے ۔ لوگ گاڑیوں پر اور پیدل آ جا رہے ہیں لیکن کسی نے مداخلت نہیں کی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو کے ساتھ پوسٹ تحریر میں بتایا گیا کہ بہاولپور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالبعلم اسامہ احمد خان کو اس کی دوست لڑکی کے باپ اور بھائی نے سرعام قتل کردیا ہے۔اس تحریر کے مطابق اسامہ شن یانگ یونیورسٹی کا طالبعلم تھا اور قتل کا واقعہ بیجنگ شہر میں پیش آیا۔ بعض صارفین نے اسامہ احمد خان کے فیس بک پروفائل کی تصویر اور لنک بھی شیئر کرنا شروع کردیئے۔چونکہ شین یانگ یونیورسٹی کے طالبعلم اسامہ کی موت خبر پہلے ہی آچکی تھی لہٰذا بڑی تعداد میں لوگوں نے یقین کر لیا کہ ویڈیو کا تعلق اسامہ خان کی موت سے ہی ہے ۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے چین کے خلاف غم و غصے کا اظہار شروع کردیا جبکہ کچھ نے ویڈیو کی تصدیق پر بھی اصرار کیا۔ پیر کے روز پاکستان میں چینی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژاؤ نے اپنی ٹوئیٹس میں وضاحت کی کہ ویڈیو میں جو لڑائی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ بیجنگ میں نہیں بلکہ چوان ژو میں ہوئی ہے اور اس میں دکھائی دینے والے تمام افراد چینی ہیں۔ جبکہ اسامہ احمد خان نے خودکشی کی تھی جس کی موت کا سن کر انہیں افسوس ہے۔ چین کے ڈپٹی چیف آف مشن نے ایک ’’فارن فرینڈز‘‘نامی انٹرنیٹ گروپ کے صفحے کا لنک بھی شیئر کیا جس پر پورے معاملے کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے مطابق چوان ژو (Quanzhou)کے علاقے شیشی میں تین مردو ں کی لڑائی کا واقعہ پیش آیا۔ جس پر پولیس پہنچی ۔ ان میں سے کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا تھا۔ بعد ازاں ایک صحافی تفصیلات معلوم کرنے پولیس اسٹیشن پہنچا ، جہاں ویڈیو میں دکھائی دینے والی خاتون نے اسے بتایاکہ جس شخص کو سڑک پر نیچے گرا یا گیا تھا وہ اس کا شوہر ہے جبکہ اسے گرانے والے خاتون کے بھائی تھے اوروہ حقیقت میں اس پر قابو پا کر اس کے ہاتھ سے چاقو چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ فارن فرینڈز کے مطابق بعد ازاں اس معاملے کے فریقین میں صلح بھی ہوگئی تاہم اس کی ویڈیو جھوٹی خبر کے ساتھ پھیلا دی گئی۔ جبکہ اسامہ کی موت کا واقعہ الگ ہے۔ اسامہ نے 11نومبر کو خودکشی کی اور اس کی لاش ایک جھیل سے برآمد ہوئی۔یونیورسٹی کے شناختی کارڈ کے ذریعے پولیس یونیورسٹی پہنچی جہاں دوستوں نے اس کی لاش شناخت کرلی۔ دوسری جانب پاکستانی حکام نے بھی وضاحت کی ہے۔ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ویڈیو کا نوٹس لیا تھا۔ شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر بتایا کہ انہوں نے بیجنگ میں پاکستانی سفیر سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ ویڈیودرست نہیں اور سفارتخانے نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے۔ مذکورہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اسامہ نے خودکشی کی تھی جس کی اطلاع ملتے ہی پاکستانی سفارتخانے کے افسر کو شین یانگ بھیجا گیا۔ مذکورہ افسر نے یونیورسٹی کے طلبہ ، عملے اور پولیس سے ملاقاتیں کی ہیں اور مرحوم کے خاندان سے بھی رابطے میں ہے جبکہ اسامہ کی لاش 17نومبر کو شین یانگ سے بیجنگ منتقل کردی گئی ہے اور اسے پاکستان پہنچانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ پریس ریلیز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اسامہ کی موت کب ہوئی۔ فارن فرینڈز کا کہنا ہے کہ اس کی موت 11نومبر کو ہوئی تھی۔ ایک اور بات جو پریس ریلیز میں نہیں ہے لیکن چینی ڈپٹی چیف آف مشن نے اپنی ٹوئیٹس میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ اسامہ نے خودکشی سے پہلے ایک پیغام بھیجا تھا جس میں اس نے کہا تھاکہ سب مجھے معاف کر دیں۔پاکستانی اور چینی سفارتکاروں کی وضاحتوں اور بیانات کے باوجود کئی سوالات باقی ہیں۔ اسامہ احمد خان کے اہلخانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ موت سے ایک روز پہلے اسامہ نے ان سے بات کی تھی اور وہ بالکل ’’نارمل‘‘ تھا۔وہ جنوری میں پاکستان آنے کا سوچ رہا تھا۔ بات چیت میں اس نے کسی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔ اسامہ کے اہلخانہ کا کہنا تھاکہ لاش ملنے تک وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔