عظمت علی رحمانی
میئر کراچی وسیم اختر نے محض آدھے گھنٹے کے نوٹس پر سینکڑوں دکانیں گرا دیں۔ آرام باغ اور لائٹ ہاؤس کی برس ہا برس پرانی ان سینکڑوں دکانوں کو تجاوزات قرار دے کر مسمار کردیا گیا۔ دوسری جانب ایمپریس مارکیٹ، لائٹ ہاؤس اور آرام باغ کے اطراف قائم دکانوں کو انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں گرانے کے باعث شہر کے تاجروں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
شہر قائد میں جاری انسداد تجاوزات آپریشن کے بہانے گزشتہ روز آرام باغ اور لائٹ ہاؤس کے علاقے میں بھی درجنوں دکانیں گرائی گئیں۔ اس جابرانہ اقدام پر دکانداروں کی جانب سے شدید احتجاج کرتے ہوئے کراچی پریس کلب تک مارچ کیا گیا اور پریس کانفرنس بھی کی گئی۔ واضح رہے کہ کے ایم سی انتظامیہ نے دکانداروں کو الٹی میٹم دیا تھا کہ مزاحمت کرنے والے افراد کو حراست میں لے لیا جائے گا۔ اس موقع پر لائٹ ہاؤس میں قائم دکانوں کے مالکان نے اپنا سامان دوسری جگہ منتقل کرنا شروع کیا، جبکہ بعض دکانداروں نے احتجاج بھی کیا۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ لائٹ ہاؤس مارکیٹ 1952ء سے قائم ہے اور یہ غیر قانونی نہیں۔ جبکہ دکاندار ہر 6 ماہ بعد بینک کے ذریعے کے ایم سی کو کرایہ بھی ادا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کراچی پریس کلب پر دکانداروں اور دکانوں میں کام کرنے والوں کی بڑی تعداد جمع تھی جس نے کے ایم سی انتظامیہ کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
ادھر آل سٹی تاجر اتحادکے صدر حکیم شاہ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’دو ہفتوں سے تجاوزات کے نام پر آپریشن جاری ہے اور اس میں اب تک صرف پختونوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بظاہر یہ آپریشن سپریم کورٹ کے نام پر ہو رہا ہے، مگر اس کی زد میں 41 ہزار دکانیں آئیں گی، جن کی، کے ایم سی نے پہلے سے لیز دی ہوئی ہے اور ہر 6 ماہ بعد کرایہ وصول کرتی ہے۔ کے ایم سی اور دکانداروں کے مابین ہونے والے معاہدے میں لکھا ہے کہ اگر کبھی کے ایم سی دکانیں خالی کرائے گی تو اس کی صورت میں 30 روز قبل نوٹس جاری کرے گی۔ تاہم ہمیں آدھہ گھنٹہ دیا گیا اور اس کے بعد آپریشن شروع کردیا گیا‘‘۔
آل کراچی تاجر اتحادکے جوائنٹ سیکریٹری طاہر سربازی کا کہنا تھا کہ ’’شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جا رہا، لیکن تاجر رہنماؤں کو رابطے میں نہیں لیا گیا کہ وہ دکانداروں کو آگاہ کرتے۔ اور یہ کہ جن لوگوں کو ادھار مال دیا تھا، ان سے رابطے کرتے۔ ہمارے ساتھ دشمنوں والا رویہ روا رکھا گیا ہے۔ شہر کی قدیم مارکیٹ لائٹ ہاؤس کو گرا کر اس سے وابستہ ہزاروں افراد کے چولہے ٹھنڈے کئے جارہے ہیں۔ یہ مارکیٹ شہریوں کو دیگر دکانوں کی نسبت مناسب دام پر اشیا فراہم کرتی تھی‘‘۔ طاہر سربازی کا کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی سپریم کورٹ کے احکامات کی غلط تشریح کرکے لوگوں کو نقصان سے دوچار کر رہے ہیں۔ اس بات کے خلاف عدالت جائیں گے۔ ہمارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھینا جار رہا ہے جو ہم کسی بھی صورت برداشت نہیں کریں گے‘‘۔
شہر کے ایک اور قدیم علاقے گارڈن میں واقع کے ایم سی مارکیٹ کے اطراف 400 سے زائد دکانیں موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر دکانیں بیٹری، ڈیزل انجن اور آٹو پارٹس وغیرہ کی ہیں۔ زولوجیکل گارڈن یونین کے صدر مصباح الشمس کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمیں اب تک نوٹس نہیں دیا گیا ہے، تاہم ہم اس لئے احتجاج کر رہے ہیں کہ کے ایم سی یہ مارکیٹ بھی گرانا چاہتی ہے۔ حالانکہ کے ایم سی نے ہی ہمیں یہاں دکانیں دی تھیں اور کرایہ وصول کیا جارہا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں اگر ہمارے چولہے بند کرو گے، تو ہم سڑکوں پر آئیں گے۔ کیونکہ ہمارا گھر یہی دکانیں چلاتی ہیں‘‘۔
معلوم رہے کہ کے ایم سی کی جانب سے گزشتہ روز صبح دس بجے آپریشن کیا گیا جس کے تحت لائٹ ہاؤس میں 296 دکانیں گرائی گئیں۔ اس کے علاوہ آرام باغ کے اطراف میں بھی سو سے زائد دکانوں کو مسمارکیا گیا ہے۔ کے ایم سی نے کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمنٹنے کیلئے سیکورٹی اداروں سے نفری بھی طلب کر رکھی تھی۔ اس آپریشن سے جہاں ایک جانب تجاوزات کے خاتمے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، وہیں ہزاروں افراد اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں متوسط طبقہ کے شہریوں کو کم نرخوں پر ملنے والے اشیا کی سہولت بھی ختم ہوگئی ہے۔
لائٹ ہائوس پر مسمار کی گئی ایک دکان کے مالک شعیب بلوچ کا کہنا تھا کہ ’’ہم بلوچستان سے تنگ ہو کر یہاں آئے اور اب ہمیں یہاں سے بھی مار کر بھگایا جا رہا ہے۔ ہمیں حکومت جان بوجھ کر غلط راستے پر ڈال رہی ہے۔ کراچی میں تجاوزات کی آڑ میں دکانوں کو مسمار کرنا معاشی قتل کے مترادف ہے۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ دکانداروں کا معاشی قتل ہونے سے روکے۔ شہری انتظامیہ اصل تجاوزات والوں کے خلاف کارروائی کر ے، ہم ان کے ساتھ ہیں‘‘۔ ایک اور متاثرہ دکان دار فضل منان جدون کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے کہا تھا کہ ہم لوگوں کو روزگار دیں گے، مگر انہوں نے تو لوگوں سے روزگار چھیننا شروع کر دیا ہے۔ لگتا ہے حکومت نے اس معاملے میں بھی یو ٹرن لے لیا ہے۔ بہتر یہ تھا کہ تمام دکانداروں کو ایک ایک ماہ کا وقت دیا جاتا اور جو 50 برس سے زائد کسی ایک جگہ پر بیٹھا کاروبار کررہا ہے، اس کیلئے متبادل روزگار کا بندوبست کرکے ہی اس کی دکان ختم کی جاتی‘‘۔