جامعہ کراچی کے کیمیائی مرکز کو حکومتی لیب کا درجہ مل گیا
کراچی(رپورٹ: رائو افنان)حکومت سندھ نے جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم(آئی سی سی بی ایس ) کو حکومت کی تصدیق شدہ لیب کا درجہ دے دیا۔سرکاری سطح پر صوبے کے تمام فارنسک، ڈی این اے، غذائی اور حیاتیاتی ٹیسٹ اسی لیباٹری میں ہوں گے۔محکمہ صحت نے محکمہ داخلہ،محکمہ قانون، آئی جی پولیس سمیت دیگر کو نوٹیفکیشن کے ذریعے آگاہ کردیا۔تفصیلات کے مطابق کلفٹن میں 2 بچوں کی ہلاکت کے بعد سندھ حکومت جاگ گئی۔محکمہ صحت کے آرڈر نمبر No.So(TECH-I)D.L/2018 کے مطابق صوبے بھرمیں فارنسک، ڈی این اے ، پیپ، غذائی اور دیگر حیاتیاتی سیمپل ٹیسٹنگ کے لئے جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمائی و حیاتیاتی علوم کوحکومت کی تصدیق شدہ لیب قراردیدی ہے،جس کی اطلاع آئی جی ،وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ،محکمہ داخلہ،محکمہ قانون،تمام ضلعی ہیلتھ افسران،میڈیکل سپریٹنڈنٹس سمیت دیگر کو دے دی گئی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ 2006اوراس کے بعد کئی اہم کیسز کے ڈی این اے جامعہ کراچی کے اسی لیب میں ہوئے۔ طویل عرصے تک جامعہ کراچی بین الاقوامی اہمیت کا حامل مرکز صرف ریسرچ کے لیے استعمال ہوتا رہا اور صوبائی حکومت نے اسے فارنسک، ڈی این اے اور دیگر سیمپل ٹیسٹنگ کے لئے استعمال نہیں کیا۔ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز نہ دینے کے باعث لیب میں مختلف ٹیسٹ نہ ہوسکے تھے۔ اس لئے صرف ریسرچ ہی ہوتی رہی۔اسی حوالے سے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ کی سربراہی میں گزشتہ دنوں اجلاس ہوا تھا، جس میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے شرکت کی تھی اور بریفنگ دیتے وقت واضح کیا تھا کہ جامعہ کراچی کی لیبارٹری میں صرف تحقیق کی جاتی ہے ، جس پر صوبائی حکومت نے لیبارٹری اپ گریڈ کرنے کے لئے محکمہ خزانہ کو حکم دیا تھا کہ ایک 2روز میں جامعہ کو 20کروڑ سے زائد کی رقم جاری کی جائے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ طویل عرصے تک سندھ حکومت اور ادارے ڈی این اے، فارنسک اور فوڈ کے ٹیسٹ کے لئے پنجاب فارنسک لیبارٹری سے سیمپل ٹیسٹنگ کراتے رہے۔ دوسری جانب محکمہ صحت کے ایک اور نوٹیفیکشن نمبر NO.SO.CI(H)2018کے مطابق ڈرگ ایکٹ 1976کی شق نمبر 16کے تحت جامعہ کے مذکورہ سینٹر کے سینیئر ریسرچ افسر ڈاکٹر شکیل احمد کو صوبائی حکومت کا نگران مقرر کردیا گیا ہے۔ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے قبل جامعہ کراچی کے اے کیو خان ریسرچ مرکز میں اہم کیسز کی سیمپل اور ڈی این اے ٹیسٹنگ کی جاچکی ہے ، جن میں نشتر پارک دھماکہ و دیگر اہم کیسز بھی شامل ہے تاہم بغیر کسی ٹھوس وجوہات کے سیمپل ٹیسٹنگ کرنا بند کردی گئی تھی۔صوبائی حکومت کی جانب سے بھی سیمپل ٹیسٹنگ بند کرنے کے حوالے سے کسی سے کوئی جواب طلب نہ کیا گیا۔