لاہور (امت نیوز) ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں۔ مرحومہ کی عمر 72 برس تھی اور وہ کچھ عرصے سے بیمار تھیں۔ واضح رہے کہ فہمیدہ ریاض قیام پاکستان سے ایک برس قبل 1946ء میں پیدا ہوئی تھیں انہوں نے 1970ء اور 80ء کی دہائی میں اس وقت شہرت حاصل کی۔ جب انہوں نے بے باکی کے نام پر فحاشی کی حدود کو چھوتی ہوئی بعض غزلیں اور نظمیں کہیں۔ ان کی ایسی ہی ایک نظم کا عنوان تھا ’’بس اب دیئے بجھا دو‘‘ فہمیدہ ریاض نے اپنی شاعری میں ترقی پسندی کے نام پر جس بے راہ روی اور فحاشی کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کی شاعری اوسط درجے سے بھی کم تر تھی۔ اور کسی طور بھی پڑھے لکھے طبقے کی توجہ حاصل نہیں کر سکی تھی۔ اسی لیے انہوں نے یہ راستہ اختیار کیا۔ ضیا دور میں فہمیدہ ریاض خودساختہ جلاوطنی اختیار کر کے بھارت چلی گئیں۔ وہ بھارتی مشاعروں اور ادبی محفلوں میں پاکستان کے خلاف برسوں ہرزہ سرائی کرتی رہیں۔ جب بھارتی ادبی حلقوں نے ان سے یہ کام لے لیا تو پھر ان میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ اور وہ بھارت میں ہی تقریباً گوشہ نشین ہو گئیں۔ بھارت میں خاطر خواہ پذیرائی نہ ملنے کے بعد بھٹو کے پہلے دور میں وہ دوبارہ پاکستان لوٹ آئیں۔ لیکن کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ بھارت میں کیا گل کھلاتی رہی تھیں۔ فہمیدہ ریاض بعض دیگر ترقی پسند شعرا کی طرح ہر طرح کے مشروبات کی شوقین تھیں۔ وہ چین اسموکر بھی رہیں۔ اور اسے ترقی پسندی کی علامت قرار دیتی رہیں۔ فہمیدہ ریاض نے ناکام شاعری کے بعد ناول نویسی میں بھی طبع آزمائی کی۔ لیکن ان کے ناول کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ کر سکے۔ ان کے مجموعہ کلام میں پتھر کی زبان،بدن دریدہ ،کلام دھوپ ،پورا چاند ،آدمی کی زندگی اور نالوں میں زندہ بہار،گوداوری اور کراچی شامل ہیں۔