امت رپورٹ
؏چینی قونصل خانے پر حملے کیلئے بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے خصوصی دستے ’’مجید بریگیڈ‘‘ کو استعمال کیا۔ پاکستان میں چینی مفادات پر حملوں کیلئے مختص کئے گئے اس دہشت گرد گروپ کے کراچی میں نیٹ ورک موجود ہونے کے شواہد مل گئے ہیں۔ مجید بریگیڈ نے شہر کے پوش علاقوں میں نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کرنے کیلئے اطراف کے علاقے کی گلیوں اور قونصل خانے کے اندر کی ریکی تین دہشت گردوں کی آمد سے قبل ہی بلوچ لبریشن آرمی کے کارندے کر کے جاچکے تھے۔ ان کی معلومات کی بنیاد پر تینوں دہشت گردوں کو پلاننگ کر کے حملے کے لئے بھجوایا گیا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گرد تنظیم کا یہ گروپ 2010ء کے بعد بلوچستان لبریشن آرمی کے سرگرم دہشت گرد باز محمد بلوچ کے مارے جانے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ اس گروپ کے دہشت گردوں کو صرف عملی کارروائی کیلئے ہی ٹھکانوں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ مذکورہ گروپ 1970ء کی دہائی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر کوئٹہ میں ہینڈ گرینیڈ کے ذریعے خودکش حملہ کرنے والے دہشت گرد مجید بلوچ اول اور 2010ء میں مارے جانے والے بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بلوچ ثانی کے نام سے منسوب کرکے قائم کیا گیا۔ تاہم اس کا باقاعدہ اعلان باز محمد بلوچ کے مارے جانے کے بعد کیا گیا تھا۔ جس نے بلوچ لبریشن آرمی میں ’’درویش بلوچ ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل کی تھی۔
سیکورٹی اداروں سے وابستہ ذرائع کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی دنیا بھر میں سی پیک منصوبے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور پاک چین دوستی کو زک پہنچانے کیلئے سرگرم ہے۔ تاہم اس کالعدم تنظیم نے پاکستان میں چینی مفادات کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے ایک خصوصی دستہ بنا رکھا ہے، جسے ’’مجید بریگیڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس گروپ کے دہشت گردوں کو بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں تربیت دی گئی ہے اور اب انہوں نے کراچی کے پوش علاقوں میں ٹھکانے قائم کرلئے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں کی آبادیوں میں ان کے ٹھکانوں کی تلاش شرو ع کر دی ہے، جن میں گزری، لیاری، ملیر، گڈاپ اور موچکو کے علاوہ ڈیفنس اور کلفٹن میں قائم آبادیاں نیلم کالونی، شاہ رسول کالونی اور دہلی کالونی سمیت ٹاپو کے علاقے بھی شامل ہیں۔ ان آبادیوں میں حالیہ عرصہ کے دوران آکر رہائش رکھنے والے مشکوک افراد کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کیلئے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے علاوہ پولیس کی اسپیشل برانچ کو بھی ٹاسک دیا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ’’مجید بریگیڈ ‘‘ گروپ میں ان افراد اور نوجوانوں کو شامل کیا جاتا ہے، جن کے ذہن پہلے ہی برین واشڈ کئے جا چکے ہوتے ہیں اور یہ کہ ان میں لڑنے بھڑنے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان دہشت گردوں کو منتخب کرنے کے بعد انہیں ٹریننگ بلوچستان کے ان پہاڑی علاقوں میں دی جاتی ہے، جو ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے منسلک ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان دہشت گردوں کو تربیت بھارتی خفیہ ایجنسی کے ’’را‘‘ کے عسکری ماہرین سے دلوائی جاتی ہے۔ انہیں مکمل طور پر بھارتی فوجی اسٹائل میں کمانڈو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ بالخصوص انہیں ’’قلابازیاں‘‘ کھانے کے بعد دوبارہ اٹھ کر کھڑے ہوکر فائرنگ کرنے اور ’’رولنگ اور کرولنگ‘‘ کے دوران خودکار ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے کارندوں کی تربیت کا سلسلہ بھارتی سرپرستی میں 2011ء میں شروع کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر پانچ پانچ دہشت گردوں کی دو ٹولیاں تیار کی گئی تھیں، جنہوں نے پہلا حملہ 2011ء میں ہی کوئٹہ میں سابق وزیر مملکت شوکت مینگل کی رہائش گاہ پر کیا تھا۔ اس حملے میں 13 شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس کارروائی کیلئے دہشت گردوں نے 50 کلو سے زائد بارودی مواد سے بھری دو گاڑیاں استعمال کی تھیں اور دھماکے کے بعد اطراف میں فائرنگ بھی کی تھی۔ ذرائع کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے اس دہشت گرد گروپ کو خصوصی طور پر خودکش حملوں کیلئے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ اس گروپ میں منتخب ہونے والے دہشت گردوں کی ٹریننگ پر چونکہ لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، اس لئے ایک بار گروپ میں شامل ہونے اور ٹریننگ شروع ہونے کے بعد ان دہشت گردوں کو دوبارہ گھروں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ دہشت گرد اپنے اہل خانہ کیلئے ’’لاپتہ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ انہیں ’’لاپتہ‘‘ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ گھر والوں اور رشتے داروں سے رابطوں کے نتیجے میں ان کا خودکش حملوں کے لئے بننے والا ذہن تبدیل نہ ہو سکے۔
ذرائع کے بقول دہشت گرد علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے اس مخصوص گروپ کے تحت اب تک بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں 7 بڑے حملے کئے جا چکے ہیں۔ کوئٹہ میں سابق وزیر مملکت شوکت مینگل کی رہائش گاہ پر حملے کے علاوہ رواں برس ہی اگست کے مہینے میں ریحان بلوچ نامی دہشت گرد کے ذریعے دالبندین کے علاقے میں چینی انجیئرز کی گاڑی پر کیا جانے والا خود کش حملہ بھی شامل ہے، جس میں 6 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ذرائع کے بقول 2010ء میں اس دہشت گرد گروپ کے قیام کے بعد 2013ء تک اس کے ذریعے ملکی اداروں اور سیاست دانوں پر حملے کرائے جاتے رہے۔ تاہم بعد ازاں اس گروپ کے دہشت گردوں کو صرف چینی باشندوں، انجینئرز اور چینی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لئے مخصوص کر دیا گیا۔ اس گروپ کے دہشت گرد کمانڈر اسلم بلوچ کی ہدایات پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ رواں برس چینی انجیئرز پر حملہ کرنے والا نوجوان دہشت گرد ریحان بلوچ، اسلم بلوچ کا بیٹا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دہشت گرد مجید بریگیڈ کے کمانڈر اسلم بلوچ سے ہی رابطے میں رہ کر ہدایات لیتے ہیں۔ اسلم بلوچ اس وقت بھارت میں روپوش ہے، جہاں پر وہ ایک اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے منتخب کردہ اہداف پر عمل درآمد کروانے کیلئے ہی اسلم بلوچ کے ذریعے بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گردوں کو ہدایات دی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق چینی سفارتخانے پر حملے کے فوری بعد خیبر پختون کے علاقے ہنگو میں بھی دہشت گردی کی کارروائی کی گئی اور یہ کارروائی بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کے احکامات پر کرائی گئی، جس کا مقصد فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانا ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اورکزئی ایجنسی کے شہر ہنگو میں متعدد بار شیعہ سنی فسادات ہوچکے ہیں، تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے یہاں امن رہا، جبکہ رواں برس پہلی بار اس علاقے میں دونوں مسالک کے شہریوں نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے محرم الحرام کا مہینہ گزارا۔ یہی بات دشمن قوتوں کو ناگوار گزر رہی تھی۔ ہنگو میں ایک ایسے علاقے میں حملہ کیا گیا جو شیعہ اکثریتی علاقہ ہے اور نشانہ بننے والوں میں اکثریت بھی اہل تشیع کی ہے۔
٭٭٭٭٭