سام سنگ کے پلانٹس کینسر پھیلانے کا سبب قرار

0

ایس اے اعظمی
جنوبی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ الیکٹرونکس کمپنی سام سنگ کے پلانٹس کینسر پھیلانے کا سبب ہیں۔ سینکڑوں کورین مرد و خواتین ملازمین سام سنگ پلانٹس پر کام کے دوران مہلک مرض کا شکار ہوگئے۔ درجنوں اموات رونما ہوئیں، ملازمین کی شکایات اور عدالتی چارہ جوئی کی دھمکیوں کے بعد کمپنی معافی مانگنے اور ہرجانے کی ادائیگی پر مجبور تو ہوئی لیکن اس نے اپنے پلانٹس میں استعمال ہونے والے مہلک کیمیکل کی شناخت اب تک ظاہر نہیں کی ہے، جس کے نتیجہ میں سام سنگ کے ملازمین کینسر اور بعد ازاں درد ناک اموات کا شکار ہوئے ہیں۔ اس پورے منظر نامہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ 2007ء میں کینسر سے مرنے والوں اور بیمار ہونے والوں نے سام سنگ کیخلاف بھرپور احتجاج کیا تھا، جس کے بعد سام سنگ کمپنی ان لواحقین کی بات سننے پر رضامند ہوئی تھی۔ کورین کاروباری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ الیکٹرونکس کا ساز و سامان بنانے والی جنوبی کورین کمپنی سام سنگ نے ایک دہائی سے زائد کے قانونی عمل کے بعد کیس کوآگے بڑھانے سے انکار کردیا ہے اور سینکڑوں ملازمین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کو مہلک جان لیوا مرض کینسر میں مبتلا ہونے کے انکشاف پر ان کو ایک کروڑ 78 لاکھ پاکستانی روپے فی کس کے ہرجانہ کی ادائیگی کرے گی اور ان سے’’کھلے دل‘‘ کے ساتھ معافی طلب کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں سیئول میں سام سنگ کے شریک صدر کم کنیم اور کینسر سے ہلاک سابق ملازم کی بیٹی کے درمیان یہ معاہدہ ہوا جس پر تمام لواحقین نے دستخط کرکے اپنا دعویٰ واپس لینے اور کمپنی کو معاف کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ میڈیا میں کمپنی کی جانب سے جاری مبہم پیغام میں ’’مہلک کیمیکل‘‘ کا نام یا استعمال ظاہر کئے بغیر ہی تسلیم کیاگیا ہے کہ ہم اپنی سیمی کنڈکٹر اور ایل سی ڈی فیکٹریز پلانٹس میں صحت کو لاحق خطرات کو روکنے کی پلاننگ میں ناکام ہوئے ہیں۔ سام سنگ الیکٹرونکس کا نام اس وقت سام سنگ گروپ کے ذیلی ادارے کے بطور لیا جاتا ہے جو اس وقت بھی دنیا میں موبائل فونز کی تیاری، فروخت اور کمپیوٹرائزڈ چپس بنانے والی صف اول کی کمپنی ہے اور اربوں ڈالر کا نفع ہر سال کماتی ہے۔ جنوبی کوریائی خبری ایجنسی یون ہاپ کا کہنا ہے کہ سام سنگ کے مختلف پلانٹس میں کام کرنے والے یہ ملازمین 1980ء کی دہائی میں مختلف جلدی اور اندرونی اعضا کی خرابیوں کا شکوہ کررہے تھے، لیکن سام سنگ کمپنی نے ان کی جانب سے بیماریوں کی تحقیقات کی درخواستوں اور جسمانی شکایات کا کوئی ازالہ نہیں کیا لیکن جب 1990ء اور 2000ء میں سام سنگ کے ایل سی ڈی سمیت ٹی وی اور دیگر اپلائنس پلانٹس پر کام کرنے والے 350 سے زائد ملازمین نے مختلف اقسام کے کینسر پھیلنے کی باقاعدہ تحریری شکایات رجسٹرڈ کرائیں اور عدالتوں سے رجوع کی دھمکیاں دیں تو سام سنگ کمپنی نے اس ضمن میں ایک کمیٹی قائم کردی۔ ماہرین طب اور قوانین کے ساتھ رابطوں کے بعد اس بات کا جائزہ لیا کہ آیا ملازمین کی جانب سے کینسر جیسے مہلک مرض کی شکایات اصلی ہیں یا نہیں۔ میڈیکل جانچ میں ملازمین کا یہ دعویٰ 100 فیصد درست ثابت ہوا کہ سام سنگ پلانٹس پر کارگزار سینکڑوں مرد و خواتین اہلکار واقعتاً کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوئے ہیں۔ ان کو 14 اقسام کا کینسر ہوا ہے جو ان ملازمین کے کام کے ماحول سمیت ان کی جسمانی کیفیات کے حوالہ سے تھے۔ ایک بات جو تمام ملازمین کی بیماریوں میں مشترک تھی، وہ کینسر ہے۔ یعنی کسی کو پھیپھڑوں کا کینسر ہوا تو کسی کو گلے کا کینسر، کسی کا گردہ خراب ہوا تو کسی کا جگر تباہ ہوگیا، کسی کا اسقاط بار بار ہوا تو کسی کے بچوں کے جسمانی عیب پیدائشی مسائل کی صورت اُجاگر ہوئے۔ سام سنگ کے سیمی کنڈکٹرز اور ڈس پلے فیکٹریز میں کارگزار دسیوں ملازمین کی درد نام اموات کا اسکینڈل 2007ء میں اُجاگر ہوا تھا لیکن عالمی ساکھ رکھنے والی سام سنگ نے چالاکی کے ساتھ اس کیس کو براہ راست عدالتی فورمز پر لے جانے کے بجائے سرکاری لیبر ایجنسی اور عدالتی ثالثی کے اداروں میں لٹکا دیا اور کیس کو اس قدر طول دیا کہ کینسر کے بیشتر شکار ملازمین مر گئے اور ان کے لواحقین کا غم جب کم ہوگیا تو سام سنگ نے ان کو معافی اور ’’مناسب ہرجانہ‘‘ کی ادائیگی کی روشنی دکھا دی جس پر تمام لواحقین رضامند ہوگئے اور یوں کمپنی نے سیئول میں منعقدہ ایک تقریب میں کینسر زدہ چند ملازمین اور ہلاک ہوجانے والے ملازمین کے لواحقین کو ایک لاکھ 33 ہزار ڈالر فی کس چیک ادا کئے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More