ملعونہ آسیہ کی بیرون ملک منتقلی کا راستہ ہموار ہوگیا

0

امت رپورٹ
تحریک لبیک پاکستان کی مرکزی قیادت اور تقریباً تمام ضلعی ذمہ داران کی گرفتاری کے بعد ملعونہ آسیہ کی بیرون ملک روانگی کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی کوئی ملک آسیہ ملعونہ کو باقاعدہ سیاسی پناہ دینے کا اعلان کرتا ہے تو اس کے فوری بعد مطلوبہ سفری دستاویزات کا عمل مکمل کر کے ملعونہ کو بیرون ملک روانہ کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے پس پردہ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق آسیہ ملعونہ کو کینیڈا، ہالینڈ، جرمنی یا آسٹریلیا میں سے کسی ایک ملک میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کینیڈا، ہالینڈ، جرمنی اور یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ آسیہ ملعونہ کی بیرون ملک منتقلی کے لئے حکومت پاکستان سے براہ راست رابطہ کر چکے ہیں، لیکن کسی ایک ملک نے بھی تاحال آسیہ ملعونہ کو باقاعدہ سیاسی پناہ دینے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اب آسٹریلیا نے بھی آسیہ ملعونہ کو سیاسی پناہ دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ گزشتہ روز آسٹریلوی وزیر داخلہ پیٹر ڈٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ آسیہ مسیح کی جان بچانے کے لئے اسے سیاسی پناہ دے دی جائے۔ باخبر ذرائع کے بقول اگلے چند دن یا ڈیڑھ سے دو ہفتے میں واضح ہو جائے گا کہ کون سا ملک آسیہ ملعونہ اور اس کی فیملی کو پناہ دے گا۔ جس کے فوری بعد ضروری سفری دستاویزات تیار کر کے اسے بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ملعونہ آسیہ اور اس کا خاندان برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کا خواہشمند ہے۔ کیونکہ دیگر یورپی ممالک کی زبان اور لوگ اس کے لئے نسبتاً زیادہ اجنبی ہوں گے جبکہ برطانیہ میں بڑی تعداد میں مقیم پاکستانیوں کی وجہ سے ملعونہ کا خاندان خود کو وہاں پر زیادہ آرام دہ محسوس کرے گا۔ تاہم ابھی تک ملعونہ کو سیاسی پناہ دینے پر برطانیہ تیار نہیں۔ قبل ازیں برطانیہ نے پناہ دینے کا عندیہ دیا تھا لیکن بعد میں پیچھے ہٹ گیا۔ برطانیہ کے ایوان میں موجود ذرائع نے تصدیق کی کہ ملعونہ آسیہ کو پناہ دے کر برطانوی حکام اپنے ملک میں افراتفری پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ اس حوالے سے ماضی کے چند واقعات ان کے سامنے ہیں۔ جیسا کہ قریباً ڈھائی برس پہلے توہین رسالت کے معاملے پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری تنویر احمد نے گلاسگو میں قادیانی دکاندار اسد شاہ کو قتل کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق چونکہ دنیا بھر میں موجود تارکین وطن پاکستانیوں کی تیسری بڑی تعداد برطانیہ میں ہے لہٰذا برطانوی حکام نہیں چاہتے کہ اس حساس معاملے پر اسد شاہ کے قتل جیسے مزید واقعات ہوں اور ان کے معاشرے میں بھی افراتفری پیدا ہو جائے۔ جبکہ ملعونہ آسیہ کو سیاسی پناہ نہ دینے کی دوسری وجہ برطانوی حکام کا یہ خدشہ ہے کہ پاکستان میں اس کے سفارتی عملے کو اس کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ ملعونہ آسیہ کو باہر بھیجنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ لندن میں ایک تقریب کے دوران چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار بھی کہہ چکے ہیں کہ آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ ذرائع کے بقول ٹی ایل پی کے مطالبے پر اگر ملعونہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال بھی دیا گیا ہوتا تو پھر بھی یہ کوئی ایشو نہیں تھا کیونکہ کسی فرد کا نام ای سی ایل سے نکالنا بھی حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور یہ کوئی طویل پراسس نہیں۔ ذرائع کے مطابق ملعونہ آسیہ کو بیرون ملک بھیجنے میں تاخیر کا واحد سبب ٹی ایل پی کا ممکنہ شدید ردعمل تھا۔ تاہم تحریک لبیک کے خلاف سخت کریک ڈائون کے بعد اب یہ امکان خاصا معدوم ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار ٹی ایل پی قیادت کی فوری رہائی کا کوئی امکان نہیں اور اس عرصے کے دوران ہی ملعونہ آسیہ کی بیرون ملک منتقلی عمل میں آ سکتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور آفس کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے مطابق چیئرمین تحریک لبیک پاکستان مولانا خادم حسین رضوی کو تھری ایم پی او کے تحت 30 دن کے لئے سینٹرل جیل لاہور میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ انہیں 24 دسمبر تک نظر بند رکھا جائے گا۔ جبکہ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے لاہور پولیس کے ایک عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ خادم حسین رضوی اور ڈاکٹر اشرف جلالی سمیت دیگر رہنمائوں کو ابتدائی طور پر 30 دن کے لئے حراست میں لیا گیا ہے لیکن یہ مدت 80 دن تک بھی ہو سکتی ہے۔ ایم پی او کے تحت زیر حراست کسی بھی شخص کی گرفتاری کی مدت میں ڈپٹی کمشنر لاہور کی درخواست پر چیف سیکریٹری توسیع کر سکتا ہے۔ جبکہ ریویو ہائی کورٹ کا بورڈ کرتا ہے۔ آئی جی پنجاب پولیس آفس کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ صرف صوبہ پنجاب میں اب تک ایک ہزار 75 افراد کو ایم پی او کے تحت حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جبکہ پولیس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان گرفتاریوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کریک ڈائون آج ہفتے کی رات بھی جاری رہے گا تاکہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ٹی ایل پی کے اعلان کردہ جلسے کو روکا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق لاہور اور قرب و جوار کے علاقوں سے گرفتار ٹی ایل پی کے رہنمائوں، عہدیداروں اور ورکرز کو سینٹرل جیل لاہور میں رکھا جا رہا ہے جبکہ فیصل آباد اور دیگر قریبی شہروں سے حراست میں لئے جانے والوں کو ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی میں جن افراد کی گرفتاریاں ہوئی ہیں انہیں اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔
ہفتے کے روز تحریک لبیک کے جن مزید اہم رہنمائوں کی گرفتاریاں ہوئیں ان میں تحریک لبیک آزاد کشمیر کے رہنما مفتی محمد عمران رضا شیرازی، صوابی کے ضلعی امیر مولانا رحمت علی، گوجرانوالہ کے مولانا امانت سرداری، خیبر پختون کے عہدیدار سید ظفر شاہ بنوری اور گجرات کے علامہ محمد آصف صدیقی سمیت دیگر شامل ہیں۔ ہفتے کی شام اس رپورٹ کے لکھے جانے تک ٹی ایل پی کے تین مرکزی رہنما راولپنڈی ڈویژن کے امیر سید عنایت اللہ حق شاہ، چارسدہ اور پشاور کے اہم رہنما علامہ شفیق امینی اور تحریک لبیک کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی گرفتار نہیں ہو سکے تھے۔ آج (اتوار کو) لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ کرانے کی ذمہ داری ان ہی رہنمائوں نے لے رکھی ہے۔ تاہم حکومت نے یہ کوشش ناکام بنانے کے لئے جوابی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ جس کے تحت ایک تو کریک ڈائون میں تیزی لائی جائے گی اور دوسری جانب جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مانیٹرنگ روم قائم کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ جبکہ فیض آباد میں بھی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار موبائلوں میں لیاقت باغ تک پیٹرولنگ بھی کر رہے ہیں۔
اگرچہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ 25 نومبر کے جلسے کی کال واپس نہ لینے پر کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ٹی ایل پی اتوار کے روز جلسے کا اعلان نہ بھی کرتی تو اعلیٰ سطح پر ان گرفتاریوں کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ کیونکہ ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے حکومتی رٹ کمزور ہونے کا تاثر پھیل رہا تھا۔ ذرائع کے بقول گرفتاریوں کے حتمی فیصلے کے بعد 12 ربیع الاول گزرنے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ تاہم اس دوران بالخصوص اسپیشل برانچ کی مدد سے پنجاب بھر میں ٹی ایل پی کے اہم رہنمائوں اور ذمہ داران کا ڈیٹا اکٹھا کر لیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کریک ڈائون کے دوران گرفتاریوں میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی مولانا خادم حسین رضوی اور افضل قادری سمیت تحریک لبیک کے دیگر رہنمائوں کی گرفتاری نقص امن کے خدشے یعنی تھری ایم پی او کے تحت کی گئی ہے۔ تاہم تحریک لبیک قیادت کے خلاف ریاستی اداروں کو سنگین دھمکیاں دینے اور عوام میں اشتعال پھیلانے کے حوالے سے مقدمات قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا جا چکا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More