یمن میں 85 ہزار بچے بھوک سے جان کی بازی ہار گئے

0

ضیاء چترالی
عبدالرحمٰن کی عمر 5 برس ہے، مگر وزن صرف 5 کلو۔ جی ہاں۔ اسے کھانے کو ہفتے میں دو یا بمشکل تین بار چند نوالے ہی نصیب ہوتے ہیں۔ اس لئے اب یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر یمن کے شہر الحدیدہ کے ایک اسپتال میں بمشکل سانس لے رہا ہے۔ پتہ نہیں سانسوں کا یہ رشتہ مزید کتنے دن برقرار رہ سکے۔ یہ صرف عبدالرحمن کی کہانی نہیں ہے۔ اس جیسے لاکھوں یمنی بچے غذائی قلت کے باعث زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق یمن مشرق وسطیٰ کا سب سے غریب ملک ہے۔ پھر ایران اور سعودی عرب کی ’’جنگ‘‘ نے اسے مزید تباہی سے دو چار کر دیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کی شدید قلت کے باعث اپریل 2015ء سے اب تک 85 ہزار یمنی بچے بھوکے مر چکے ہیں۔ یعنی ہر دس منٹ میں ایک بچہ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا اور جنگ جاری رہی تو مزید گیارہ لاکھ بچوں کی زندگی کا چراغ بھی عنقریب گُل ہو جائے گا۔ حدیدہ میں ڈیڑھ لاکھ بچوں کی زندگی کو خطرہ ہے، کیونکہ حالیہ ہفتوں میں وہاں بمباری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق غذائی قلت کا شکار ہو کر مرنا ایک طویل اور نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ یمنی باشندے اس کے مقابلے میں بموں یا گولیوں کا نشانہ بن کر مرنے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق اس طرح کے بچوں کے اعضائے رئیسہ آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتے ہیں اور قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بہت آسانی سے انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اتنے کمزور ہو جاتے ہیں کہ رو بھی نہیں سکتے۔ والدین بے بسی سے اپنے بچوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھتے ہیں، مگر وہ ان کیلئے کچھ کر نہیں پاتے۔ اقوام متحدہ کے مطابق حوثیوں کے یمن پر قبضے اور ان کے خلاف عرب اتحاد کی جانب سے جاری آپریشن کے نتیجے میں تین برسوں کے دوران 10 ہزار بڑی عمر کے افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں سے دو تہائی عام شہری تھے۔ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 55 ہزار ہے۔ 20 لاکھ افراد کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی اشد ضرورت ہے اور بچوں میں غذائی کمی کی شرح ایک سال میں 63 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ہر دس منٹ میں 5 سال سے کم عمر کا ایک بچہ موت کے منہ میں جا رہا ہے۔ بروقت امداد پہنچا کر اسے بچایا جا سکتا ہے۔ شدید غربت، جنگ اور عرب اتحاد کی جانب سے بحری پابندیوں نے خوراک کی فراہمی کو شدید متاثر کیا ہے۔ یمن میں ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، جن میں 22 لاکھ بچے شامل ہیں۔ 50 ہزار کے قریب بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جبکہ نو فلائی زون کی وجہ سے 20 ہزار زخمیوں کو علاج کیلئے بیرون ملک بھی نہیں لے جایا جا سکتا۔ ہیومن رائٹس واچ کے سربراہ کانٹ روٹھ کا کہنا ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں اور عرب اتحاد کی جنگ میں بیشتر غذائی اور طبی مراکز تباہ ہوگئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یمن کے کئی لاکھوں باشندوں کو غذائی قلت اور طبی مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ سے کھیت، مویشی، غذائی پیداوار کے کارخانے، غذائی مواد کی دکانیں اور بازار تباہ ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق غذائی قلت اور اس کے نتیجے میں مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر 85 ہزار سے یمنی زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے ’’سیو دی چلڈرن‘‘ نے ان اعدادوشمار کی تصدیق کی ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ تین برس میں بھوک سے مرنے والے یمنی بچوں کی تعداد برطانیہ کے شہر برمنگھم میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد کے برابر ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ بھی خبردار کیا تھا کہ ایک کروڑ یمنی آبادی قحط کے خطرے سے دو چار ہے۔ عالمی ادارہ یمن میں جنگ بندی کے لیے بات چیت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ دنیا کے بدترین انسانی بحران سے بچا جا سکے۔ یمن میں 2015ء میں جنگ کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے وہاں فضائی بمباری کی۔ یہ کارروائی حوثی باغیوں کے خلاف کی گئی۔ اس نے صدر منصورالہادی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ جنگ اور راستوں کی بندش نے دو کروڑ بیس لاکھ افراد کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اس کی وجہ سے خوراک کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا ہے اور ہیضے کی وبا سے بارہ لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ واضح رہے کہ اموات کے یہ اعداد و شمار مختلف طبی مراکز میں رپورٹ ہونے والے واقعات کی روشنی میں جمع کیا گیا ہے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سی ہلاکتوں کے بارے میں رپورٹ ہی نہیں کیا گیا، کیونکہ ملک میں موجود صحت کی سہولیات کے مراکز میں سے صرف نصف کام کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ بہت غریب ہیں۔ اس کے علاوہ صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ سیو دی چلڈرن کا کہنا ہے کہ اس نے جو اعداد و شمار بتائے ہیں، وہ دراصل ان قحط کا شکار پانچ سال سے کم بچوں کے ہیں، جنہیں امداد نہیں ملی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 84 ہزار سات سو بچے اپریل 2015ء سے اکتوبر 2018ء کے دوران ہلاک ہوئے۔ جبکہ 36 ہزار بچے ایک ماہ کے دوران ہی موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر بہت سے خاندانوں کو خوراک کے بحران کا شکار کر رہی ہے۔ جبکہ سرکاری ملازمین کو دو سال سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ جنگ کے بعد سے اب تک اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں 68 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یمنی ریال کی قدر میں اس عرصے کے دوران 180 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ یمنی ریال تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔ علاوہ ازیں جنگ زدہ یمن کو تیزی سے بڑھتے ہوئے ہیضے کے خوفناک بحران کا بھی سامنا ہے۔ یمن میں کام کرنے والی پانچ بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے پیر کے روز واشنگٹن سے جاری اپنے ایک مشترکہ بیان میں امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عرب اتحاد میں شامل ممالک کو اسلحے کی ترسیل بند کردے، تاکہ یمن کے قحط زدہ انسانوں کو بھوکے مرنے سے بچایا جا سکے، ورنہ ایک بہت بڑا المیہ چند دنوں کی بات ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More