سدھارتھ شری واستو
بھارتی حکومت نے ممبئی حملوں میں ملوث قرار دیئے جانے والے اجمل قصاب کے دو وکیلوں کی فیس دبا لی۔ دونوں مسلمان وکیل فیسوں کی وصولی کیلئے تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد مایوس ہوگئے ہیں۔ 2008ء میں مقدمہ کے آغاز سے قبل دونوں تجربہ کار وکیلوں کو مہاراشٹر حکومت کے لیگل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ممبئی ہائی کورٹ کے ایکٹنگ چیف جسٹس جے این پٹیل کے احکامات و سفارش پر اجمل قصاب کا وکیل مقرر کیا گیا تھا۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ شفاف مقدمہ کی کارروائی کیلئے اجمل قصاب کو یہ وکیل فراہم کئے گئے ہیں اور ان کو مناسب معاوضہ ادا کیا جائے گا، لیکن چار برس تک مقدمہ چلانے اور دونوں وکیلوں کو عدالتوں کے چکر لگوانے کے باوجود مہاراشٹر حکومت نے مقدمہ کے دوران بھی فیسوں کی ادائیگی نہیں کی اور وعدہ کیاکہ مقدمہ کی کارروائی کے اختتام پر دونوں وکیلوں کا لاکھوں میں بننے والا محنتانہ اور تمام حساب کتاب یکمشت ہی چُکتا کردیا جائے گا لیکن چار سالہ عدالتی کارروائی کے بعد اگرچہ اجمل قصاب کو 21 نومبر 2012ء میں مہاراشٹر کی یاراواڑہ جیل میں پھانسی دے دی گئی لیکن اس کا مقدمہ جی جان سے لڑنے والے دونوں مسلمان وکیلوں کا محنتانہ مراٹھا حکومت نے دبا لیا اور یکسر خاموشی اختیار کرلی۔ حالانکہ دونوں وکیلوں نے اس سلسلہ میں مراٹھا حکومت کو یادداشتیں اور ای میل پیغامات کی مدد سے بارہا یاد دلایا لیکن کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی مہاراشٹر حکومت نے ان وکلا کی بات اور فیسوں کی ادائیگیوں کی یاد دہانیوں کا کوئی جواب تک دیا گوارا نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ایڈوکیٹ امین سولکر اس وقت عالمی مبلغ اور اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کیس بھی لڑ رہے ہیں اور بعض بھارتی حکام اور اسلامی رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ امین سولکر کو اجمل قصاب کیس میں فیسوں کی ادائیگیوں سے اس لئے محروم رکھا جارہا ہے کہ امین سولکر، ذاکر نائیک کی وکالت سے دستبردار نہیں ہورہے ہیں۔ اپنی ایک گفتگو میں ممبئی میں موجود بھارتی صحافی سندھیا رائو نے بتایا ہے کہ مہاراشٹر اسٹیٹ لیگل سروس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس ضمن میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ممبئی حملوں میں گرفتار اجمل قصاب کی وکالت کیلئے دو مسلمان وکلا فرحانہ شاہ اور امین سولکر کو مقرر کیا گیا تھا اور ان کو سرکاری طور پر فیس کی ادائیگی کا تحریری وعدہ بھی کیا گیا تھا لیکن دس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود دونوں وکیلوں کو اجمل قصاب کا مقدمہ لڑنے کی فیسیں ادا نہیں کی گئی ہیں، جب اسٹیٹ لیگل ڈیپارٹمنٹ سے استفسار کیا گیا کہ آیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے امین سولکر ایڈوکیٹ اور فرحانہ شاہ ایڈوکیٹ کی فیسیں دبا رکھی ہیں تو ایک اعلیٰ افسر نے تسلیم کیا کہ دونوں وکیلوں کی فیسیں واجب الادا ہیں لیکن اس ضمن میں قصور دونوں وکیلوں کا ہے جنہوں نے اب تک مہاراشٹر اسٹیٹ لیگل سروس ڈیپارٹمنٹ کو اپنی فیسوں کی ادائیگیوں کیلئے بل بنا کر پیش نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے ان کو لاکھوں میں ادائیگیاں نہیں کی جاسکی ہیں لیکن جب اس ضمن میں ایڈوکیٹ فرحانہ شاہ اور امین سولکر ایڈوکیٹ کا موقف ہے کہ قانونی اعتبار سے مہاراشٹر اسٹیٹ لیگل سروس ڈیپارٹمنٹ کو بل بنا کر بھجوانے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ اجمل قصاب کاکیس ورپیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ لڑنے والی فرحاہ شاہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کیس کے ایک مرحلہ پر نو ماہ تک روزانہ پیشی کی بنیاد پر کام کیا ہے اور ممبئی ہائی کورٹ کے چکر لگائے تھے لیکن اس پورے منظر نامہ میں ان کو اب تک فیس کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ ایڈوکیٹ فرحانہ شاہ کا کہنا ہے کہ اب تو انہوں نے اپنی فیس کی ادائیگی کی اُمید بھی ترک کردی ہے، کیونکہ ہمیں ایک طویل عرصہ ہوگیا ہے کہ ہم نے کوشش تو کی لیکن مہاراشٹر اسٹیٹ لیگل سروس ڈیپارٹمنٹ کے ٹس سے مس نہ ہونے پر فیسوں کی امید چھوڑ دی ہے، یہ کیس ہمارے لئے بروبونو کیس بن چکا ہے جس میں وکیل کسی کیس کو تن دہی سے لڑتا ضرور ہے لیکن اس کی فیس نہیں لیتا۔ سو ہم نے بھی اس کیس کی فیس کیلئے ہاتھ پیر مارنے چھوڑ دیئے ہیں۔ ممبئی ہائی کورٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک عمومی کیس لڑنے کیلئے ہائی کورٹ کے لیول کے کسی بھی سرکاری وکیل کو حکومت ہند کی جانب سے 1 ہزار روپیہ ٹی اے ڈی اے اور 2 ہزار روپے کیس کی فی دن فیس کے بطور ادا کئے جاتے ہیں اور چونکہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا اس لئے اس میں روزانہ کا مشاہرہ 4 سے 5 ہزار بنتا ہے اور ایک ماہ کی فیس ڈیڑھ لاکھ روپیہ اور نو ماہ تک کیس کو لڑنے کی فیس ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ بنتی ہے، لیکن مہاراشٹر لیگل ڈیپارٹمنٹ قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر اس کیس کو لڑنے والے وکلائے کرام کا معاوضہ روکے بیٹھا ہے۔ بھارتی قوانین کے مطابق کسی بھی ملزم کو کورٹ میں چلائے جانے والے کیس میں وکیل کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر ملزم کے پاس وکیل ہائر کرنے کی فیس نہ ہو تو اس کیلئے عدالتی جج سرکاری وکیل کا انتخاب کرتا ہے۔ جب ایڈووکیٹ امین سولکر سے اس ان کی اجمل قصاب کیس لڑنے کی فیس کی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میںاپنی فیس کو ہرگز فراموش نہیں کروں گا اور اس کی ادائیگی مہاراشٹر حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ مہاراشٹر اسٹیٹ لیگل سروس ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسر کا دعویٰ ہے کہ جب تک دونوں وکلا امین سولکر اور فرحانہ شاہ ایڈوکیٹس اپنی جانب سے بل بنا کر پیش نہیں کریں گے تب تک ان کو ادائیگی نہیں کیا جاسکتی تو اس پر امین سولکر کا موقف تھا کہ بل کیوں پیش کیا جائے؟ جب ہمیں ممبئی ہائی کورٹ کے تحریر ی احکامات پر مقرر کیا گیا ہے تو سرکار کا فرض ہے کہ ہمیں اپنے ہی نوٹیفکیشن کی بنیاد پر معاوضہ ادا کریے کیونکہ ممبئی حملوں کو دس برس ہوچکے ہیں اور اجمل قصاب کو پھانسی 2012ء میں دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اجمل قصاب کا کیس لڑنا جان جوکھم کا کام تھا جس کیلئے دونوں وکلا امین سولکر اور فرحانہ شاہ کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیوں کی وجہ سے پولیس اسکارٹ بھی مہیا کی گئی تھی اور ان کو ذاتی محافظ بھی دیئے گئے تھے۔ ہندو انتہا پسند ہندوں نے اجمل قصاب کا کیس لڑنے کی پاداش میں امین سولکر او فرحانہ شاہ کو قتل کی دھمکیاں بھی دی تھیں، لیکن دونوں وکلا نے پیشہ ورانہ مہارت سے یہ کیس لڑا لیکن چونکہ بھارتی حکومت، عدلیہ اور میڈیا ہر قیمت پر اجمل قصاب کو پھانسی دینے کے موڈ میں تھے، اس لئے دونوں پروفیشنل وکلا کی ممبئی ہائی کورٹ میں ایک نہ چلی اور اجمل قصاب کو پھانسی دے دگی گئی۔
٭٭٭٭٭