سید نبیل اختر
کے ایم سی کی انسداد تجاوزات مہم کے دوران کورنگی میں اربوں روپے مالیت کی 500 ایکڑ اراضی پر قائم تجاوزات کو بھی فراموش کر دیا گیا۔ 2007ء سے 2014ء کے دوران باغ کورنگی کی آباد کاری کے ساتھ ساتھ 100 سے زائد مقامات پر چائنا کٹنگ کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے احکامات نظر انداز کر کے میئر کراچی نے ریگولرائزڈ دکانوں کے چھجوں اور بل بورڈز تک تجاوزات کیخلاف آپریشن کو محدود کر دیا۔ اربوں روپے مالیت کی یہ سرکاری اراضیاں واگزار کرانے کے لئے اب تک کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ متحدہ کے ووٹ بنک کے باعث کورنگی کی مارکیٹوں میں کئے جانے والے نمائشی آپریشن سے بھی گریز کیا جا رہا ہے۔
کے ایم سی کے ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پتھاروں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ ایسی اراضیاں بھی واگزار کرانا تھیں، جن پر چائنا کٹنگ کر کے ہزاروں پلاٹ کاٹے گئے تھے۔ شہر میں مختلف علاقوں میں سرکاری اراضی پر چائنا کٹنگ کی گئی، جس میں کورنگی سرفہرست ہے۔ یہاں 500 ایکڑ پر مشتمل اراضی پر چائنا کٹنگ کر کے پانچ ہزار سے زائد پلاٹ کاٹے گئے اور انہیں اونے پونے داموں فروخت کیا گیا اور شہریوں سے ڈھائی ارب روپے بٹورے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی کے برعکس کے ڈی اے نے 5 ہزار 485 پلاٹ واگزار کرالئے ہیں، جبکہ میئر کراچی کی اس سلسلے میں کارکردگی اب تک صفر ہے۔
’’امت‘‘ نے چائنا کٹنگ سے متعلق شواہد جاننا شروع کئے تو معلوم ہوا کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں باغ کورنگی میں 5 ہزار سے زائد پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کر کے شہریوں کو ڈھائی ارب روپے کا چونا لگایا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ 2007ء میں سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کو متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی رہنماؤں نے باغ کورنگی کی 400 ایکڑ اراضی پر چائنا کٹنگ کرنے کا مشورہ دیا اور کروڑوں روپے ہاتھ لگنے کے سہانے خواب دکھائے۔ کراچی تنظیمی کمیٹی سے اس سلسلے میں باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی اور لانڈھی کے سیکٹر انچارج آصف حسنین کو پروجیکٹ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ذرائع کے بقول سب سے پہلے باغ کورنگی کے اس پورشن پر چائنا کٹنگ شروع کی گئی، جہاں 2001ء میں باغ کورنگی سیکٹر 10 میں ٹاؤن پلاننگ لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کے نام سے پروجیکٹ شروع کیا گیا اور لائنز ایریا شفٹنگ میں وہاں کے مکینوں کو گھر بنا کر دینے تھے۔ مذکورہ پروجیکٹ کے تحت لائنز ایریا کے مکینوں کو 80 گز کے تیار شدہ مکانات فراہم کرنا تھے۔ مذکورہ پروجیکٹ کے لئے باغ کورنگی قبرستان کے سامنے واقع اراضی کو دو بلاکوں بلاک اے اور بی میں تقسیم کیا گیا۔ مذکورہ پروجیکٹ 20 ایکڑ سے زائد اراضی پر بنایا جانا تھا۔ یہاں ماڈل ہاؤس بھی بنائے گئے، جس کا افتتاح2001ء میں اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ لائنز ایریا شفٹنگ کے معاملات جان بوجھ کر لٹکائے گئے اور لو کاسٹ اسکیم کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ 2005ء میں شہری حکومت متحدہ کے ہاتھ آچکی تھی۔ 2006ء کے آخری مہینے میں آصف حسنین، بدنام زمانہ دہشت گرد منظور لمبا اور متحدہ کے دیگر مقامی رہنماؤں نے مصطفی کمال کو باغ کورنگی پر چائنا کٹنگ کر نے کے لئے راضی کیا۔ کٹنگ کا کام شروع ہوا تو پروجیکٹ کے لئے بنائے گئے بلاک اے اور بی کے ساتھ ملحقہ خالی اراضی کو بلاک سی، ڈی، ای اور ایف میں تقسیم کر کے سیکڑوں پلاٹ کاٹے گئے۔ نئی آباد کاری کے لئے 80 گز کا فی پلاٹ 50 ہزار روپے تعارفی قیمت کے ساتھ فروخت ہونا شروع ہوا۔ انتہائی سستے پلاٹ فروخت ہونے پر محض یونٹ اور سیکٹر دفاتر کی زبانی یقین دہانی پر شہریوں نے پلاٹوں کی خریداری کا آغاز کر دیا۔ ایک سال کے دوران ایک ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کرلی گئی۔ کرپٹ افسران کی جانب سے جعلی ماسٹر پلان بنایا گیا۔ گلیاں، سڑکیں، اسکول اور مساجد کے لئے بھی اراضی مختص کی گئی۔ ایک ہزار پلاٹ فروخت ہونے کے بعد 80 گز کی زمین کا ریٹ ایک لاکھ روپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک وصول کرنا شروع کر دیا گیا۔ باغ کورنگی کی مذکورہ اراضی جہاں چائنہ کٹنگ کی گئی ہے، یہاں پر 2007ء سے قبل مختلف سبزیوں، گلاب اور ناریل کے درختوں کے فارم قائم تھے۔ کورنگی تا شاہ فیصل برج کی تعمیر سے قبل کورنگی سے شاہ فیصل اور شاہ فیصل سے کورنگی آنے جانے کے لئے مذکورہ اراضی کے ساتھ ہی روڈ گزرتا تھا، جس کا انفرااسٹرکچر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔ 80 گز کی کٹنگ کے بعد باغ کورنگی پروجیکٹ کو مزید توسیع دی گئی اور پھر 120 گز کے مزید پلاٹ کاٹ دیئے گئے۔ زمینوں پر قبضے سے ملنے والی رقم اس قدر بڑھ گئی کہ متحدہ رہنما عامر معین، سابق متحدہ لانڈھی سیکٹر انچارج منظور لمبا، فاروق بیگ، فاروق ملک، سابق ناظم لانڈھی ٹاؤن ڈاکٹر ارشاد اور رکن الدین نے بھی پروجیکٹ میں چھلانگ لگالی۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ رہنماؤں نے درجنوں پلاٹ کے بجائے فی کس سو پلاٹوں کا مطالبہ کیا۔ معاملہ مصطفی کمال اور تنظیمی کمیٹی کے پاس پہنچا تو پروجیکٹ کی ذمہ داری آصف حسنین سے لے لی گئی اور فاروق بیگ کو سیکٹر انچارج مقرر کراکے باغ کورنگی پر چائنا کٹنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ فاروق بیگ کی تقرری سے متحدہ رہنماؤں اور کارکنوں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ متحدہ کی لندن قیادت نے کارکنوں کو فاروق بیگ کے احکامات پر عمل درآمد کے لئے سخت احکامات جاری کئے۔ ذرائع نے بتایا کہ اندرونی اختلافات اتنے شدید ہوگئے تھے کہ بعد میں سیکٹر انچارج فاروق بیگ کو قتل کر دیا گیا۔ فاروق بیگ دو مرتبہ لانڈھی اور کورنگی سیکٹر کا انچارج رہا۔ فاروق بیگ کے قتل کے بعد معاملات دوبارہ آصف حسنین کے ہاتھ آگئے، جس نے منظور لمبا کو باغ کورنگی میں رہ جانے والی خالی اراضی ہتھیانے اور فروخت کرنے کا ٹاسک دیا۔ منظور لمبا نے کرپٹ کے ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے مزید 2 ہزار پلاٹ کاٹے اور 50 ہزار روپے والا پلاٹ 4 لاکھ روپے میں فروخت کیا جانے لگا۔
ذرائع نے بتایا کہ 2009ء میں شہریوں نے باغ کورنگی میں رہائش اختیار کرنا شروع کی تو منظور لمبا نے ٹاؤن پلاننگ لو کاسٹ ہاؤسنگ اسکیم پروجیکٹ کے بلاک اے اور بلاک بی کے لئے 2001ء میں ڈالی گئی سیوریج اور پانی کی لائنیں استعمال کرنا شروع کروادیں۔ بعد ازاں غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والے تمام مکانات کو انہی مذکورہ لائنوں سے منسلک کرنا شروع کر دیا۔ بجلی کی فراہمی کے لئے نسرین جلیل کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کے بھانجے تابش گوہر کے ذریعے غیر قانونی آبادی کے لئے 2010ء میں پی ایم ٹیز کی تنصب شروع ہوئی۔ اس سے قبل 2008ء کے وسط میں باغ کورنگی میں واقع گلشن ملت کے رہائشی و کمرشل پلاٹوں کے لئے سوئی گیس فراہمی کی منظوری ہوئی، جس کے بعد سوئی سدرن کمپنی کی جانب سے گیس کی لائنیں ڈالی گئی تھیں۔ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے 2009ء میںمذکورہ گیس کی لائنیں چائنا کٹنگ والے علاقے تک پہنچائیں، جہاں سے غیر قانونی طور پر قائم ہونے والے مکانوں کو گیس کے کنکشن فراہم کئے گئے۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ متحدہ قیادت کے حکم پر مکینوں کو جلد ہی لیز دلانے کا آسرا دیا گیا اور چند مخصوص افراد کو کے ڈی اے کی جعلی لیز بنا کر بھی دے دی گئی۔ تاہم 5 ہزار سے زائد مکانوں کے مالکان کے پاس کسی قسم کی کوئی سرکاری دستاویزات نہیں ہیں۔ شہریوں کو پہلے 50 ہزار روپے، پھر 4 لاکھ اور بعد میں 10 سے 12 لاکھ روپے تک اراضی فروخت کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2007ء سے 2014ء کے درمیان شہریوں کو ڈھائی ارب روپے سے زائد کا چونا لگایا گیا۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ قبضہ مافیا نے باغ کورنگی قبرستان کی اراضی کو بھی نہ بخشا اور وہاں بھی قبضہ کراکے الحمرا سٹی کے نام سے چائنا کٹنگ کا نیا پروجیکٹ متعارف کرایا۔ اس پروجیکٹ کا فرنٹ مین صابر نامی شخص بنا۔ ذرائع نے بتایا کہ باغ کورنگی قبرستان کے برابر میں واقع تقریباً8 ایکڑ اراضی پر الحمرا سٹی کے نام سے چائنا کٹنگ کی گئی۔ مذکورہ اراضی قبرستان کے لئے مختص تھی، جسے قبرستان بھرجانے پر تدفین کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔ مذکورہ اراضی پر چائنا کٹنگ کر کے 80 گز کے پلاٹ کاٹے گئے اور شہریوں کو فروخت کئے گئے۔ جبکہ یہاں پلاٹوں کی فروخت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مذکورہ اراضی پر 80 گز کا پلاٹ 12 لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا اور بنا بنایا مکان اس وقت 20 سے 45 لاکھ روپے تک میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
باغ کورنگی قبرستان کے متعلق ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ قبرستان 1918ء میں انگریز دور میں رجسٹرڈ ہوا تھا۔ اس وقت اس کی اراضی 18 ایکڑ پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔ ابتداء میں جس اراضی پر قبرستان بنایا گیا، وہ محبت خان اور گورام خان نامی شخص کی ملکیت بتائی جاتی ہیں، جن کی قبریں اسی قبرستان میں ہی موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق جس مقام پر الحمرا سٹی کے نام سے چائنا کٹنگ کی گئی، اس کے بالمقابل موجود اراضی پر قبضہ کر کے اس پر بھی چائنا کٹنگ کر دی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کو شیروانی کے نام سے متعارف کرایا گیا اور یہ اراضی 4 ایکڑ سے زائد پر مشتمل ہے۔ جس پر قبضہ کر کے 80 گز کے پلاٹ کاٹے گئے۔ یہاں تعمیر ہونے والے مکانات کے جعلی کاغذات پر بجلی، گیس اور سیوریج کی سہولیات بھی متعلقہ اداروں کی جانب سے فراہم کی جا چکی ہیں۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ کورنگی میں متحدہ رہنمائوں کی زیر سرپرستی 100 سے زائد مقامات پر چائنا کٹنگ کی گئی۔ ہزاروں گز اراضی پر چائنا کٹنگ پلاٹوں کے لئے کھیلوں کے میدان، پارکس، سروس روڈ، نالے، فٹ پاتھ اور رجسٹرڈ عیدگاہ پر تعمیرات سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کورنگی نمبر 5 پر قائم کرکٹ اسٹیڈیم اور قبرستان روڈ کے درمیان موجود سروس روڈ اور فٹ پاتھ پر بھی چائنا کٹنگ کر کے 80 گز سے 120 گز کے پلاٹ کاٹے گئے اور سستے داموں فروخت کئے گئے۔ وہیں کورنگی نمبر5 سے چارپول کی طرف جانے والے روڈ پر موجود سروس روڈ اور فٹ پاتھ پر چائنا کٹنگ کر کے پلاٹ فروخت کئے گئے ہیں۔ جس میں ایک پلاٹ کی مالیت لاکھوں روپے بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح کورنگی نمبر 4 سیکٹر 35/A اور سیکٹر 35/C میں چائنا کٹنگ کر کے 80 سے زائد پلاٹ کاٹے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کورنگی نمبر 6 کی مارکیٹ کے ساتھ گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری اسکول نمبر 1 (94509 No، SEMIS CODE) اور سینٹ جان میڈیکل سینٹر کے سامنے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے غیر قانونی مارکیٹ بنائی گئی، جہاں 60,60 گز کے پلاٹ کاٹ کر فروخت کئے گئے اور ہر پلاٹ میں 2 سے 3 دکانیں بنائی گئیں اور فی دکان20 لاکھ روپے تک فروخت کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ کورنگی نمبر 4 میں واقع گورنمنٹ اسکول اور کلو چوک کے درمیان موجود ایس ٹی 33، ایس ٹی 33-1 اور ایس ٹی 42 پر قبضہ کر کے چائنا کٹنگ کی گئی۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ کورنگی نمبر ڈھائی سیکٹر 41-B چنیوٹ اسپتال کے عقب میں ڈسپنسری اور پارکنگ کے لئے مختص جگہ پر چائنہ کٹنگ کر کے 80 گز کے 12 پلاٹ فروخت کئے گئے، جن کی موجودہ مالیت 25 سے 30 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کورنگی نمبر ساڑھے 3 سیکٹر 35-C میں مارکیٹ کے قریب ڈبل اسٹوری کے عقب میں ایس ٹی86 پر قبضہ کر کے مکان تعمیر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ ایس ٹی36 پلاٹ پر قبضے میں خالد رحمانی ملوث ہے، جسے ایم کیو ایم کے سابق یونٹ انچارج شمع کی سرپرستی حاصل تھی۔ ایس ٹی36 پر پہلے بھی قبضے کی کوشش کی گئی تھی اور ایک حصے پر تعمیرات بھی کرلی گئی تھی، جسے الخدمت کے سابق ناظم لانڈھی ٹاؤن شاہد خان نے مسمار کروایا تھا۔ بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ کے دور نظامت میں مقامی سیکٹر اور یونٹ کی سرپرستی میں دوبارہ تعمیرات کا کام شروع ہوا اور پوری ایس ٹی 36 پر تعمیرات مکمل کرلی گئیں اور پھر اسے لاکھوں روپے میں فروخت کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کورنگی نمبر 4 دیوان سلمان مسجد کے ساتھ موجود پلے گراؤنڈ پر بھی قبضہ کر کے چائنا کٹنگ کی گئی۔ سروے کے دوران علاقہ مکینوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ گراؤنڈ بچوں کے کھیلنے اور شادی بیاہ کی تقریبات کے استعمال میں آتا تھا۔ جبکہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے اجتماعات بھی اسی گراؤنڈ میں ہوتے تھے۔ لیکن بعد ازاں گراؤنڈ پر قبضہ کر کے آدھے گراؤنڈ پر چائنا کٹنگ کردی گئی۔
تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ کورنگی پی اینڈ ٹی سوسائٹی میں بھی چائنا کٹنگ کر کے پلاٹ فروخت کئے گئے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ پی اینڈ ٹی سوسائٹی میں بلاک B اور بلاک C میں بڑے پیمانے پر چائنا کٹنگ کی گئی ہے۔ بلاک B میں گرین بیلٹ پر 120 گز کے پلاٹ کاٹے گئے ہیں، جہاں اس وقت ڈبل اسٹوری مکانات تعمیر ہیں۔ جبکہ کھیل کے میدان کے لئے مختص اراضی پر بھی پلاٹ کاٹ کر فروخت کر دیئے گئے، جن کا جعلی
فائل ریکارڈ سوسائٹی کے نقشے میں شامل کیا گیا۔ وہیں کورنگی نمبر 5 سلطان اسپتال کے عقب میں سرکاری زمین پر قبضہ کرکے 200 سے زائد پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کی گئی، جس میں سے ہر پلاٹ کی مالیت 25 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ کورنگی نمبر ساڑھے 3 میں واقع کمپری ہینسیو اسکول کے اطراف چائنا کٹنگ کر کے 100 سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ کمپری ہینسیو اسکول کی دیوار کے ساتھ چائنا کٹنگ کی گئی، جہاں 100 سے زائد مکانات تعمیر کئے گئے۔ عید گاہ گرائونڈ کے سامنے سروس روڈ پر 50 کے قریب دکانیں قائم کی گئیں، جو چائنا کٹنگ کا نتیجہ ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کورنگی نمبر ڈھائی ڈبل روڈ اٹک پیٹرول پمپ بسم اللہ اسٹاپ سے مسجد جمیل کی طرف جانے والے روڈ کے دونوں اطراف سروس روڈ پر چائنا کٹنگ کرکے 80 گز کے 30 مکانات تعمیر کئے گئے۔ مذکورہ پلاٹ کورنگی سیکٹر کے سابق انچارج رئیس مما کی سرپرستی میں چائنا کٹنگ کرکے فروخت کئے گئے تھے۔ مزید تحقیقات پر معلوم ہوا کہ کورنگی کے سیکٹر 35-A کبڈی گرائونڈ کے 4 ایس ٹی پلاٹ اور مسجد بیت الحمد کی رجسٹرڈ عید گاہ پر قبضہ کر کے 5 سو سے زائد مکانات تعمیر کرائے گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭