اسلام آباد( نمائندہ امت)احتساب عدالت میں نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر محمد کامران نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے فلیگ شپ کیلئے رقم فراہم کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی تو ملزم نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے اور ان کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح جاری رکھی۔محمد کامران نے کہا کہ تفتیش کے دوران ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نواز شریف نے اپنے اکاؤنٹ سے فلیگ شپ، کوئینٹ پنڈ گٹن یا کسی دوسری کمپنی کے لئے رقم فراہم کی۔ حسن نواز کا بھی ایسا کوئی بیان بھی نہیں دیکھا کہ والد کی جانب سے مجھے کوئی ایسی رقم فراہم کی گئی جب کہ دوران تفتیش ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ حسن نواز پر برطانیہ میں کاروبار سے متعلق کسی بے ضابطگی کا الزام رہا ہو۔تفتیشی افسر نے کہا کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ نواز شریف نے پاکستان یا بیرون ملک کسی اکاؤنٹ سے حسن و حسین نواز کے تعلیمی اخراجات پورے کیے، کسی گواہ نے بھی ایسا کوئی بیان نہیں دیا، دوران تفتیش کسی نے نہیں کہا کہ حسن اور حسین نواز 2000ء اور اس کے بعد نواز شریف کے زیر کفالت رہے، کسی گواہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ کمپنی بناتے وقت حسن نواز بے نامی دار تھے۔تفتیش کے دوران ایسے کوئی شواہد نہیں دیکھے کہ حسن نواز پر برطانیہ میں کاروبار سے متعلق کسی بے ضابطگی کا الزام رہا ہو،جے آئی ٹی کی رپورٹ کے لئے میں نے خود کوئی درخواست نہیں دی، نیب ہیڈ کوارٹرز کو خط لکھا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ فراہم کریں،اس موقع پرتفتیشی افسرنے نیب ہیڈ کوارٹرز کو لکھا خط عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب راولپنڈی نے 17اگست 2017کو تصدیق شدہ جیآئی ٹی رپورٹ فراہم کی،تصدیق شدہ کاپی سے پہلے ایک غیر تصدیق شدہ کاپی بھی حاصل کر رکھی تھی،اس موقع پر عدالت نے استفسار کیاکہ جے آئی ٹی رپورٹ حاصل کرنے سے متعلق اتنے سوالات کی کیا اہمیت ہے؟خواجہ صاحب یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ یہ سامنے جے آئی ٹی رپورٹ ہی رکھی ہے،نیب نے جیسے بھی یہ رپورٹ حاصل کی بس کر لی،جس پرتفتیشی افسرنے کہاکہ میں نے یہ نوٹ نہیں کیا، جے آئی ٹی رپورٹر پر ایسی کوئی مہر تھی جس مئں رپورٹ کے لئیے درخواست دینے والے کا نام لکھا ہو،اس موقع پر خواجہ حارث کاکہناتھاکہ کیا مہر میں ایسا کچھ لکھا تھا کہ تصدیق شدہ کاپی کے لیے ٹکٹس کس نے فراہم کیں جس پر عدالت نے انہیں کہاکہ تفتیشی نے کہہ دیا ہے کہ میں نے نوٹ ہی نہیں کی پھر اس پر دوبارہ سوال کیوں؟اگلا سوال پوچھیں جس پرخواجہ حارث نے کہاکہ کیا آپ اب وہ مہر دوبارہ دیکھنا چاہیں گے ؟ جس کے جواب میں تفتیشی افسرنے کہاکہ مجھے اب وہ مہر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اس پر عدالت نے کہاکہ جو سوال تفتیشی سے بنتا ہی نہیں وہ آپ پوچھ رہے ہیں ،وقفہ کے بعد جرح کے دوران خواجہ حارث نے پوچھاکہ ایتھن پلیس لندن میں پراپرٹی نمبر 99،97 کی لینڈ رجسٹری کی کاپی آپ نے ظاہر شاہ سے حاصل کی تھی،جس پر تفتیشی افسرنے بتایاکہ ایم ایل اے کے جواب میں لینڈ رجسٹری کی کاپی ظاہر شاہ سے لی تھی،اس موقع پر خواجہ حارث نے پوچھا کہ جو آپ نے ظاہر شاہ سے دستاویزات لی تھیں اس پراپرٹی کے ٹائیٹل نمبر مختلف تھا،جس کے جواب میں تفتیشی افسرنے کہاکہ جی مختلف تھا لیکن یہ دو الگ الگ پراپرٹی ہیں،خواجہ حارث کی طرف سے دونوں ہراپرٹی کے مختلف ہونے سے متعلق پوچھنے پر تفتیشی افسرنے کہاکہ جی یہ دونوں پراپرٹی الگ ہیں،جس پر خواجہ حارث نے پوچھاکہ آپ نے دستاویزات حاصل کرنے کیلئے جو درخواست میں کیا ڈسکرپشن دیا تھا،کیا آپ نے اپنی درخواست میں جو ڈسکرپشن دی تھی اس کے مطابق دستاویزات نہیں تھیں، جس پر تفتیشی محمد کامران کاکہناتھاکہ جی ڈسکرپشن کے مطابق دستاویزات نہیں ملی،جس پر خواجہ حارث نے پوچھاکہ کیا جو اپ کو پراپرٹی کی دستاویزات دی گئی وہ پراپرٹیز مختلف ہیں،جس کے جواب میں تفتیشی افسرنے لاعلمی کا اظہارکیا،اس موقع پر وقت ختم ہوجانے کے باعث عدالت نے کاروائی ملتوی کرنے کاکہاجس پرخواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس میں سوالنامہ فراہم کرنے کی پھراستدعاکرتے ہوئے کہاکہ ہم نے کوشش تو کی ہے لیکن جرح مکمل نہ کرسکے آج جرح مکمل کرلیں گے عدالت نے مزید سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی۔