عمران خان
چینی قونصل خانے پر حملے کے مرکزی ملزمان کی حوالگی کیلئے وزارت خارجہ اور سفارتی سطح پر بیرونی ممالک سے رابطوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف آر میں نامزد مرکزی ملزمان کے تانے بانے بھارت، افغانستان اور یورپی ممالک سے ملے ہیں۔ قونصل خانے پر حملے کی تحقیقات میں سامنے آنے والے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر وفاقی وزارت داخلہ کے ذریعے بھارت، افغانستان اور بعض یورپی ممالک کی حکومتوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ مقدمہ میں نامزد مرکزی ملزمان کے خلاف ان ممالک کو ثبوت اور شواہد پیش کرکے انہیں پاکستان لانے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا جاسکے ۔
ذرائع کے بقول چینی قونصل خانے پر حملے کے مرکزی ملزمان میں شامل کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کا سربراہ حیر بیار مری کچھ عرصہ قبل تک یورپی ملک سوئٹزر لینڈ میں مستقل طور پر رہائش پذیر تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل حیر بیار مری پر سوئٹزر لینڈ میں داخلے کی پابندی عائد کردی گئی تھی، جس کے بعد وہ برطانیہ، کینیڈا اور ناروے آتا جاتا رہا ہے۔ مقدمہ میں دوسرے نمبر پر نامزد دہشت گرد کمانڈر اسلم بلوچ عرف اسلم اچھو عرف میرک بلوچ دو برس قبل تک بھارت میں روپوش رہا۔ دہلی کے اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اب وہ افغانستان کے شہر قندھار میں موجود ہے۔ جہاں دیگر کمانڈر بھی اس کے ساتھ ہیں۔ ذرائع کے بقول اسلم اچھو بلوچ لبریشن آرمی کے اس منحرف گروپ کا سربراہ ہے، جواس وقت مجید بریگیڈ کے نام سے سرگرم ہے اور اس کو مفرور علیحدگی پسند بلوچ کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر کی حمایت بھی حاصل ہے۔ بلوچستان میں ڈاکٹر اللہ نذر، اسلم، بلوچ اور اختر مینگل نے بیرون ملک موجود حیربیار مری کی ہدایت پر مشترکہ طور پر سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں، جس کیلئے افغانستان اور بھارت سے پیغامات دیئے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق چینی قونصل خانے پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف اب تک کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ہلاک ملزمان کے قبضے سے بعض ایسے ثبوت اور شواہد ملے ہیں، جن سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے افغانستان اور بھارت میں بیٹھے بعض افراد سے رابطے تھے اور انہیں ان دونوں ممالک سے مسلسل پیغامات موصول ہورہے تھے۔ مارے گئے تینوں دہشت گردوں کی جیبوں سے تفتیش کاروں کو ایسی پرچیاں بھی ملی ہیں، جن پر ہدایات موجود تھیں اور جائے وقوعہ کے نقشے اور معلومات درج تھیں۔ ان پرچیوں کی فارنسک تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان پر موجود فنگر پرنٹس کس کے ہیں ۔
پولیس ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والی تحقیقات میں سامنے آنے والے ثبوت شواہد پر چین کے متعلقہ حکام سے بھی تبادلہ کیا گیا ہے اور ان معلومات کی چینی ماہرین بھی چھان بین کررہے ہیں۔ جس کے بعد چین کے ایکسپرٹس واقعہ کی تفتیش میں باضابطہ طور پر حصہ لیں گے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کا کہنا تھا کہ واقعہ کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی گئی ہے، جو تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ جن 13 افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا ہے، اب تفتیش میں ملنے والے ثبوت و شواہد کی روشنی میں ان ملزمان سے دہشت گردی کے اس واقعہ کے تانے بانے ملانے رہ گئے ہیں۔ فارنسک تحقیقات کے کچھ حصے مکمل کرلئے گئے ہیں اور کچھ باقی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پوری تفتیش میں پولیس کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت دیگر ادارے شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ ایسے ثبوت دہشت گردوں کے کپڑوں اور ان کے زیر استعمال گاڑی سے بھی ملے ہیں جن پر تحقیقات جاری ہیں۔ چینی ماہرین کی تفتیش میں شمولیت اور مشترکہ تحقیقات کے حوالے سے ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ چینی حکام سے معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم اب تک باضابطہ طور پر چینی ماہرین تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن چونکہ چین کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے اور جدید طریقہ تفتیش سے لیس ادارے بھی ہیں اس لئے ضرورت پڑنے پر چینی ماہرین کی مدد اور تعاون بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پولیس ذرائع کے بقول چینی قونصل خانے پر حملے کا مقدمہ ایس ایچ او بوٹ بیسن کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں دہشت گردی، دھماکہ خیز مواد رکھنے، قتل اور اقدام قتل کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ آپریشن میں ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں سمیت 13 ملزمان کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق دہشت گردوں نے دو پولیس اہلکاروں کو قتل کیا، گیٹ پر تعینات سیکورٹی گارڈ جمن خان کو فائرنگ سے زخمی کیا، قونصلیٹ آنے والے افراد فائرنگ کی آواز سن کر اندر چلے گئے۔ دہشت گردوں نے گیٹ کو توڑنے کیلئے آئی ای ڈی ڈیوائس استعمال کی۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو افراد بھی ہلاک ہوئے جبکہ پولیس اور رینجرز نے تینوں دہشت گردوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔ حملے میں قونصلیٹ کے باہر کھڑی 9 گاڑیوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ استقبالیے پر ہلاک دہشت گرد کے قبضے سے ایک کلاشنکوف برآمد ہوئی۔ جبکہ اس کے بیگ سے شناختی کارڈ اور سرکاری سروس کارڈ بھی برآمد ہوا۔ کمرے کے اندر ہلاک ہونے والے دہشت گرد سے ایک کلاشنکوف اور گولیاں برآمد ہوئیں۔ قونصلیٹ کے باہر ہلاک دہشت گرد سے ایک کلاشنکوف، گولیاں اور میگزین برآمد ہوا۔ دہشت گرد کے بیگ سے 3 بم اور فرسٹ ایڈ کا سامان برآمد ہوا۔ جبکہ جائے وقوعہ سے 7 دستی بم اور کلاشنکوف کے 40 خول تحویل میں لئے گئے۔ متن میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک دہشت گردوں کا تعلق کالعدم بی ایل اے سے ہے اور اس تنظیم کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے تعلق ہے۔ ذرائع کے مطابق دہشت گرد جس گاڑی میں قونصل آئے تھے، اس کا فرانزک مکمل کرلیا گیا ہے۔ گاڑی پر تین سے زائد افراد کے فنگر پرنٹس حاصل کر لیے گئے ہیں، جنہیں نادرا سے چیک کرانے کے بعد ملزمان کی شناخت واضح ہوجائے گی۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے سے بھی فنگر پرنٹس لئے گئے ہیں اور تمام فنگر پرنٹس نادرا کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ کے مطابق تحقیقات میں تانے بانے جس ملک تک جائیں گے، اس کے ثبوت اور شواہد وفاقی وزارت داخلہ اور سفارتی سطح پر ان ملکوں کو بھیجے جائیں گے تاکہ ملزمان کو پاکستان لانے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ اس وقت تفتیش کار ہلاک ہونے والے دہشت گردوں اور بیرون ملک موجود عناصر کے درمیان رابطوں کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جلد ہی حقائق سامنے آجائیں گے۔ کیونکہ یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردوں کے بیرون ملک رابطے تھے۔
٭٭٭٭٭