کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے حکومت سندھ کی طرف سے اومنی گروپ کو 2 ارب روپے سےزائد کا فائدہ پہنچانے کے ثبوت حاصل کر لئے۔ 1 ارب 35 کروڑ روپے کی دادو اور ٹھٹھہ شوگر ملیں تمام اثاثوں سمیت 22 کروڑ میں سونپ دی گئیں ،جبکہ بیمار صنعت کے نام پر ایک ارب کی سبسڈی سے بھی نوازاگیا۔ سیکریٹری صنعت سندھ نے بتایا کہ تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کے حوالے کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ صنعت سندھ کی طرف سے پیش کئے جانے والے ریکارڈ میں ٹھٹھہ شوگر مل کو کوڑیوں کے مول فروخت کرنے میں سندھ کی حکمراں جماعت کی اہم شخصیات کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آڈیٹر جنرل کی سال 2011.12 کی آڈٹ رپورٹ میں دادو شوگر مل کو سستے داموں فروخت کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔سندھ شوگر کارپوریشن کی ملکیت دادو شوگر مل 1977 میں قائم کی گئی اور اس کی کرشنگ کی صلاحیت 2 ہزار 800 ٹن یومیہ تھی۔ مل قیام سے لیکر آپریشنل نہیں کی گئی تھی جس سے خزانے کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا ۔حکومت سندھ نے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد 2002 میں اس کو نجکاری کمیشن سندھ کے سپرد کر دیا جس سے متعلق اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کروائے گئے ۔ 26 اگست 2002 کو طلب کردہ ٹینڈرکے نتیجے میں 15 کروڑ 60 لاکھ روپے کی بولی موصول ہوئی تھی ، جبکہ مل کی مجموعی مالیت46 کروڑ 65 لاکھ سے بھی زائد تھی۔ کم قیمت ملنے پردادو شوگر مل کو فروخت کرنے کا معاملہ التوا میں ڈال دیا گیا ۔ 14 جولائی 2005 کو سندھ کابینہ نے ایک مرتبہ پھر عدالت کی نگرانی میں اس مل کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ 8ستمبر 2006 کو عدالتی ہدایات پر اسپیشل اسائنی مقرر کیا گیا اور 10 جنوری 2007 سےٹینڈر طلب کئے ۔ جس میں دادو شوگر مل کی مالیت46 کروڑ 65 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی تاہم 40 کروڑ کی بولی لگی تو محکمہ صنعت سندھ نے 11 ستمبر 2007 کو اسے سب سے زیادہ بولی قرار دے کر غیر مشروط طور پر قبول کر لیا۔ انتہائی عجلت میں کئے فیصلے میں بولی دہندہ سے سکیورٹی ڈپازٹ لیا گیا اور نہ ہی مجموعی رقم کی اقساط کے معاملات طے کئے گئے ۔اس کے باوجود بولی دینے والا پیچھے ہٹ گیا، بعد میں کسی اور فرم کی طرف سے 23 کروڑ روپے کی بولی منظور کی گئی لیکن وہ بھی شوگر مل نہ لے سکی۔ ذرائع کے مطابق عدالت کے اسائنی نے7مئی 2008 کو پھر حکومت سندھ کو کہا کہ مل کی نیلامی کے معاملے کو نمٹایا جائے جس پر تیسری بار ٹینڈر طلب کئے گئے ۔ اس بار بھی سب سے زیادہ بولی 40 کروڑ کو موصول ہوئی تاہم اس کے باوجود مل تمام اثاثوں سمیت اومنی گروپ کی نوڈیرو شوگر مل کومجموعی طور پر 9 کروڑ روپے میں فروخت کر دی گئی۔ریکارڈ کے مطابق دسمبر 2009میں عدالت کے اسپیشل اسائنی نے حکومت سندھ کو لیٹر لکھ کر تحفظات کا اظہار کیا ، لیکن اس کا جواب تک نہ دیا گیا ۔ 2 فروری 2011 کو محکمے کے اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دعوی کیا گیا کہ نیلامی کا سارا عمل عدالت کے اسپیشل اسائنی کی موجودگی میں مکمل کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دادو شوگر مل کی نیلامی کی منظوری جو 11 جون 2008 کی دی گئی تھی وہ غیر قانونی تھی۔حکومت سندھ کے اس فیصلے سے سرکاری خزانے کو 30 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی حکام کو ملنے والے شواہد کے مطابق حکومت سندھ نے 96کروڑ روپے سے زائد مالیت کی ٹھٹھہ شوگر مل اومنی گروپ کو 12 کروڑ 75 لاکھ روپے میں فروخت کی جس سے قومی خزانے کو83کروڑ سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت سندھ نے ایک طرف کوڑیوں کے مول ٹھٹھہ شگر مل اومنی کو فروخت کی تو دوسری طرف اس کو بیمار صنعت قرار دے کر ایک ارب کی سبسڈی دی گئی تاہم یہ یونٹ ابھی تک بند ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں ملوں کی مالیت ایک ارب 35 کروڑ سے زائد تھی جو اومنی گروپ کو مجموعی طور پر 22 کروڑ 75 لاکھ روپے میں تمام اثاثوں سمیت فروخت کی گئیں ۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سیکریٹری صنعت سندھ عبدالحلیم شیخ کا کہنا ہے کہ آڈٹ پیرا میں جو بتایا گیا ہے وہ سچ ہے جے آئی ٹی کے طلب کرنے پر تمام ریکارڈ سپرد کر دیا ہے اور تمام حقائق سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئوں دیرو شگر مل وفاقی حکومت کی ملکیت تھی جو دادو شوگر انتظامیہ نے 2001 میں خرید ی تھی اس خریداری میں اومنی گروپ کا براہ راست نام موجود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہے۔