نمائندہ امت
تحریک لبیک پاکستان کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف انتظامیہ کا آپریشن ابھی تک جاری ہے۔ پولیس کے مخبر اور دیگر اداروں کے اہلکار تحریک لبیک کے روپوش قائدین اور متحرک کارکنوں کے خلاف پوری طرح سرگرم ہیں۔ ان کے گھروں اور مدارس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ راولپنڈی اور اس کے نواح سے تحریک لبیک کے تقریباً 200 عہدیداروں و کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سے 95 کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ تحریک لبیک کے قائد علامہ خادم حسین رضوی سمیت متعدد افراد کے خلاف مقدمات میں مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔ خادم حسین رضوی کے خلاف درج مقدمے میں ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو قومی اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے اور دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔ دیگر کئی گرفتار ملزمان کی طرح علامہ خادم حسین رضوی کے بھائی امیر حسین رضوی کا پولیس نے سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر رکھا ہے۔ تحریک لبیک راولپنڈی ڈویژن کے امیر علامہ شاہ عنایت الحق 24 نومبر کو اپنے مدرسے اور گھر پر چھاپوں سے پہلے ہی روپوش ہوگئے تھے۔ ذرائع کے مطابق پولیس ان کی گرفتاری کے لیے کئی مقامات پر چھاپے مار چکی ہے، لیکن اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ گزشتہ روز مخبر کی اطلاع پر روات کے ایک پلازہ میں واقع فلیٹ پر شاہ عنایت الحق کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا گیا۔ ذرائع کے بقول پلازہ کے نگران نے پولیس کو بتایا تھا کہ شاہ عنایت الحق گزشتہ دو تین دن سے اسی فلیٹ میں چند ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے، لیکن کچھ دیر قبل وہ یہاں سے جاچکے ہیں۔ علامہ عنایت الحق شاہ کے خلاف بھی مقدمات درج ہیں اور وہ راولپنڈی انتظامیہ کو تحریک لبیک کے انتہائی مطلوب افراد میں شامل ہیں۔ اسی طرح تحریک کے قائم مقام امیر علامہ ڈاکٹر شفیق امینی کی بھی گرفتاری ممکن نہیں ہوسکی جس کیلئے انتظامیہ نے کافی کوششیں کیں۔
علامہ خادم حسین رضوی کی جیل سے تقریباً ساڑھے پانچ منٹ کی ایک ویڈیو جاری ہوئی ہے، جو غالباً کسی نے خفیہ طریقے سے بنائی ہے۔ سر پر کالی ٹوپی پہنے سفید لباس میں ملبوس کرسی پر بیٹھے علامہ خادم حسین رضوی دو تین افراد کو ہمت و حوصلے کی تلقین کر رہے ہیں۔ سامنے موجود افراد کیمرے میں نہیں آئے، لیکن ان کی واضح آواز آرہی ہے۔ جیل سے اپنے ویڈیو پیغام میں علامہ خادم حسین رضوی نے کہا ہے کہ ’ہمارے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ حضور اکرمؐ کی ناموس کا سوال ہو تو چین سے نہیں بیٹھیں گے‘۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے بھی کہا ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی نے اس ویڈیو میں مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آپ ﷺ نے فرمایا، جب کتے کی رسی اس کے مالک کے ہاتھ میں ہو تو وہ شیر کو بھی پڑ سکتا ہے۔ میری رسی میرے مالک کے ساتھ ہے اور اس کے ہاتھ میں ہے۔ صحابہؓ نے اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالے تو اپنی طاقت سے تو نہیں ڈالے، کسی اور پاور اور طاقت سے ڈالے تھے۔ ہم بھی ان کے پیروکار ہیں۔ اگر اب ہم بیٹھ گئے تو اللہ کے رسولؐ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ یہ بات یاد رکھیں۔ اور جو یہ کررہے ہیں، ان کا ایسے صفایا ہوگا کہ ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی‘‘۔ علامہ خادم حسین رضوی کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر چل رہا ہے اور ان کے جانثار کارکنان اسے پھیلا رہے ہیں۔ یہ کیسے ریکارڈ ہوا، کس نے کیا۔ ذرائع کے مطابقق سرکاری ادارے اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کے بعض گرفتار افراد، جن کی تعداد ایک درجن سے زائد معلوم ہوئی ہے۔ 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر تحریک لبیک اور اس کی سرگرمیوں سے لاتعلق رہنے کا حلف نامہ دے کر رہائی بھی حاصل کررہے ہیں۔ انتظامیہ نے ٹی ایل پی کے بعض متحرک کارکنوں کو، جنہیں 25 نومبر کے پروگرام کے موقع پر گرفتار کیا گیا تھا، یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اگر وہ تحریک لبیک سے علیحدگی اختیار کرلیں اور انتظامیہ کی جس حد تک ممکن ہو مدد کریں تو انہیں رہا کردیا جائے گا، بشرطیکہ وہ آئندہ اس جماعت کی کسی سرگرمی میں شریک نہ ہونے کا حلف نامہ دیں۔ دیگر کئی افراد کی طرح ایسا ہی حلف نامہ محمد عباس حیدر ولد محمد نسیم آف کمال پور سرگودھا روڈ فیصل آباد نے دیا ہے۔ محمد عباس حیدر نے 2018ء کے الیکشن میں تحریک لبیک کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم اب انہوں نے نہ صرف حلفاً اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی ہے بلکہ اس علیحدگی اور لاتعلقی کا اشتہار بھی شائع کرادیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت تحریک لبیک کو مسلسل دباؤ میں رکھ کر اس کے متحرک کارکنوں کو گھروں میں بٹھانے یا جیل میں بند کرنے کے فیصلے پر کاربند ہے اور اپنی حکمت عملی کے مطابق آگے پڑھ رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب تحریک لبیک کی قیادت پر پاکستان مخالف سرگرمیوں کے الزامات عائد کرکے تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے پر بھی قانونی حلقوں میں سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔