ٹی ایل پی قائدین کی جلد رہائی کا امکان نہیں

0

نمائندہ امت
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری سمیت دیگر رہنمائوں کی جلد رہائی کا امکان نہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت تحریک لبیک کی مزاحمتی قوت کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس میں فوری طور پر نرمی کا امکان نہیں ہے۔ اس نرمی کا انحصار تحریک لبیک کی مرکزی قیادت کے رویے اور آئندہ کی پالیسی پر ہے۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک پاکستان کے قائدین کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف دائر کی گئی رٹ اعتراض لگا کر واپس کر دی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار سابق امیدوار قومی اسمبلی سید ظفر حسین گیلانی سے کہا ہے کہ وہ متاثرہ شخص یا فریق نہیں ہیں۔ جن افراد کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، ان کے خاندان کا کوئی فرد ہی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ جس کے بعد ٹی ایل پی کے وکیل، پیر افضل قادری کے روپوش صاحبزادے سے، وکالت نامہ حاصل کر کے نئے سرے سے عدالت سے رجوع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں ڈپٹی کمشنر نے علامہ خادم حسین رضوی، ان کے بیٹے سعد رضوی کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن پیش کیا، جس کے بعد پٹیشنر ظفر حسین گیلانی نے کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر افراد کی گرفتاری کا انتظامیہ نے اعتراف کرلیا ہے اور اب ان کی زندگی محفوظ ہے۔ لیکن انہیں یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ ان سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں کہ پیر محمد افضل قادری، علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر ٹی ایل پی رہنمائوں کو کہاں رکھا گیا ہے اور وہ کس حال میں ہیں اور نہ ان سے کسی کی ملاقات کرائی جارہی ہے۔
سید ظفر حسین گیلانی این اے 187، لیہ سے 2018ء کے الیکشن میں تحریک لبیک کے امیدوار تھے۔ انہوں نے نبیل جاوید کاہلوں ایڈووکیٹ کی وساطت سے تحریک لبیک کے قائدین کی غیر قانونی طریقے سے گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ان کی رٹ کی سماعت جسٹس مظاہر حسین نقوی نے کی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کچھ دیر کی بحث کے بعد رٹ یہ اعتراض لگا کر واپس کر دی کہ وہ متاثرہ فریق نہیں اور قانون کے تحت گرفتار افراد کا کوئی عزیز ہی اس کی نظر بندی کو چیلنج کر سکتا ہے۔ سید ظفر حسین گیلانی کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے چوبیس ہزار کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ کوشش تھی کہ پہلے قائدین کی غیر قانونی نظر بندی ختم کرائی جائے اور انہیں رہا کرایا جائے، جس کے نتیجے میں تمام کارکنوں کے حوصلے بھی بڑھیں گے اور گرفتار افراد کی رہائی کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سید ظفر حسین گیلانی نے بتایا کہ… ’’ہماری رٹ کے بعد انتظامیہ نے ان کی گرفتاری و نظر بندی کا اعتراف ایک خط کی صورت میں عدالت کے سامنے کیا ہے۔ ہماری علامہ خادم حسین رضوی سے ملاقات نہیں کرائی جارہی اور ہمیں مشورہ دیا گیا ہے کہ ہم ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کریں۔ لیکن علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری سمیت کون کس ضلع کی حدود میں نظر بند ہے اور کس ڈی سی سے ہم نے رابطہ کرنا ہے، ہمیں یہ معلومات بھی نہیں دی جارہی ہیں‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’میرے وکیل نبیل جاوید کاہلوں پر عدالت میں دباؤ ڈال کر اس رٹ سے الگ ہونے کا کہا گیا۔ ان کے فائل پکڑنے اور عدالت میں کھڑے ہونے کے طریقہ کار پر بھی معزز عدالت نے اعتراض کیا، جس پر ہم سب کو حیرت ہوئی۔ جس کے بعد عدالت نے پٹیشنر (سید ظفر حسین گیلانی) کو گرفتار افراد کا رشتہ دار نہ ہونے کی وجہ سے رٹ واپس کر دی۔ اب ہم پیر محمد افضل قادری کے بیٹے سے وکالت نامہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ ظفر حسین گیلانی نے کہا کہ ’’آزاد شہری کے طور پر ہماری قیادت اور ہمارا حق ہے کہ ہم اس نظر بندی کے خلاف عدالت سے رجوع کریں۔ لیکن جیسا کہ علامہ خادم حسین رضوی نے ہمیشہ یہی درس دیا ہے، ہم اپیل کسی سے نہیں کریں گے۔ نظر بند اور گرفتار تمام افراد کسی اخلاقی جرم میں پابند سلاسل نہیں ہیں۔ ان کا جرم تحفظ ناموس شان رسالت کے لئے آواز اٹھانا اور گھروں سے باہر نکلنا ہے اور اس جرم پر اپنی گرفتاری پر بھی انہیں فخر ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر سید ظفر حسین گیلانی نے کہا کہ ’’جس طرح علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے بیٹے کو بغیر کسی نوٹس اور اطلاع کے گھر کے دروازے توڑ کر اور گھر پر دھاوا بول کر گرفتار کیا گیا، وہ انتہائی شرمناک اور غیر انسانی طریقہ ہے۔ ان کا جرم کیا ہے، وہ ابھی تک نہیں بتایا گیا۔ ہم ان سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں اور مشورہ کر رہے ہیں کہ ان کی طرف سے کون رٹ دائر کرے۔ کیونکہ ان کے بیٹے اور بھائی تو پہلے ہی گرفتار ہیں‘‘۔
ذرائع کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے بعض ذمہ دار افراد جو روپوش ہیں اور ان کی گرفتاری کی کوشش پولیس جاری رکھے ہوئے ہے، وہ پس پردہ رہتے ہوئے صوبہ بھر سے گرفتار افراد کی فہرستیں بنانے میں مصروف ہیں۔ تاکہ تمام گرفتار افراد کی رہائی کے لئے قانونی مدد فراہم کی جائے۔ ان ذرائع کے بقول بعض ذمہ دار اور قانونی ماہرین کی علامہ خادم حسین رضوی اور سید محمد افضل قادری سے جلد ملاقات کی بھی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ ان سے موجودہ حالات کے بارے میں ہدایات لی جا سکیں اور جیل سے باہر کی صورت حال بتا کر مشاورت کرکے لائحہ عمل بنایا جائے۔ چونکہ تحریک لبیک کی مرکزی قیادت گرفتار اور نظر بند ہے یا کچھ عہدیدار حکمت عملی کے تحت روپوش ہیں تو ان سخت حالات میں سید ظفر حسین گیلانی جیسے افراد کا سامنے آکر قانونی راستہ اختیار کرنا اور قیادت و کارکنوں کو قانونی ریلیف دلانے کی کوشش، تحریک لبیک کے ہمدرد حلقوں کے خیال میں بہت اچھا اقدام ہے۔ تاہم ان حلقوں کے مطابق اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ تحریک لبیک کے خلاف اقدامات یعنی اب بھی روپوش عہدیداروں کی گرفتاری کا فیصلہ واپس لے لیا جائے اور اس کی قیادت کو رہا کر دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق حکومت تحریک لبیک کی مزاحمتی قوت کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس میں فوری طور پر نرمی کا امکان بہت کم ہے اور اس نرمی کا انحصار تحریک لبیک کی مرکزی قیادت کے رویے اور آئندہ کی پالیسی پر ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More