سید نبیل اختر
کے ایم سی اینٹی انکروچمنٹ کی تجاوزات مٹاؤ مہم میں اورنگی میں غیر قانونی طور پر کاٹے گئے 12 ہزار پلاٹ بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ میئر کراچی غدار وطن الطاف حسین کے نام سے بسائی جانے والی بستی ’’الطاف نگر‘‘ میں 400 ایکڑ اراضی پر قائم تجاوزات ختم کرنے سے گریزاں ہیں۔ آبادی بسانے کے دوران سرکاری خزانے کو ایک ارب 25 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ بڑے پیمانے پر سرکاری اراضی ٹھکانے لگانے کیلئے کے ایم سی کے سینئر ڈائریکٹر مظہر خان کے نام پر غیر قانونی لیز بنائی گئی۔ میگا پروجیکٹ میں تنظیمی کمیٹی کی نگرانی میں کاٹے گئے پلاٹ پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے متحدہ کارکنوں کے اہلخانہ اور اندرون سندھ مقیم کارکنوں کو سستی رہائشی اسکیم کے نام پر فروخت کئے گئے۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ میئر کراچی اور ان کے ماتحت ڈائریکٹرز نے الطاف نگر میں کی گئی میگا چائنا کٹنگ کو اپنی حالیہ مہم میں بچانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، تاکہ ان کا ووٹ بینک متاثر نہ ہو۔ متحدہ قومی موومنٹ کے دہشت گردوں نے اورنگی ٹاؤن کے صرف ایک علاقے میں 12 ہزار پلاٹ کاٹ کر سرکاری خزانے کو ایک ارب 25 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ غیر قانونی بستی کو ’’الطاف نگر‘‘ کا نام دیا گیا، تاکہ غدار وطن کو خوش کیا جاسکے۔ مصطفیٰ کمال کے نظامت سنبھالتے ہی چائنا کٹنگ کے لئے متحدہ رہنما شمیم صدیقی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ 400 ایکڑ اراضی پر پلاٹنگ کی منصوبہ بندی پہلے ہی کرلی گئی تھی۔ متحدہ دہشت گرد شاکر علی نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق انچارج حماد صدیقی کو ایک ارب روپے کماکر دینے کی یقین دہانی پر ’’الطاف نگر‘‘ کی فروخت کا ٹھیکہ حاصل کیا۔ اراکین اسمبلی اور ٹاؤن ناظمین شاکر علی کے احکامات پر عملدارآمد کرتے رہے۔ کے ایم سی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسران جعلسازی میں برابر کے شریک رہے۔ 120 گز کا پلاٹ 70 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کیا گیا۔ جرمن اسکول، الائیڈ اسکول، نجیب کلینک، جمال اسکول، کورین اسپتال کے اطراف بھی 400 سے زائد پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کی گئی۔ پلاٹوں کی فروخت سے حاصل رقم کا بیشتر حصہ افسران، نائن زیرو اور لندن قیادت کو پہنچایا جاتا رہا۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ متحدہ کے دہشت گردوں نے تقریباً 12 ہزار سے زائد پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کے لئے اورنگی ٹاؤن کے علاقے ساڑھے 11 کا انتخاب کیا۔ مصطفی کمال کے نظامت سنبھالتے ہی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی لیز بنانے کے لئے کے ایم سی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو بھی شامل کیا گیا۔ متحدہ کے سابق رکن اسمبلی شمیم صدیقی کو پروجیکٹ کا ذمہ دار مقرر کیا گیا۔ قبضے کے لئے منعقدہ پہلے اجلاس میں اورنگی کے بدنام دہشت گرد شاکر علی کو 10 ہزار پلاٹوں کی فروخت کا ٹاسک دیا گیا۔ حماد صدیقی کی ہدایات پر شاکر کی معاونت کے لئے جلیس نامی دہشت گرد کو پروجیکٹ میں شامل کیا گیا۔ غیر قانونی لیز کی منظوری اور دستاویزات کی تیاری کے بعد متحدہ کے پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے اہلخانہ اور اندرون سندھ مقیم متحدہ کارکنوں کو سستی رہائشی اسکیم کے نام پر یہ پلاٹ فروخت کئے گئے۔ شاکر علی متحدہ رہنماؤں کے ٹارگٹ سے بھی آگے نکل گیا اور پلاٹوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کرگئی، جس پرالطاف نگر پروجیکٹ کو 5 بلاکس میں تقسیم کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس غیر قانونی رہائشی اسکیم الطاف نگر میں کوئی ایمیونٹی پلاٹ مختص نہیں کیا گیا تھا۔ 400 ایکڑ رقبے پر کوئی سرکاری اسپتال ہے نہ سرکاری اسکول کے لئے جگہ مختص کی گئی۔ پروجیکٹ کا سارا دارومدار 120 گز کے پلاٹوں کو کاٹنے پر رکھا گیا۔
’’امت‘‘ نے الطاف نگر کے غیر قانونی پلاٹوں کو جاری کی گئی لیز بھی حاصل کی، جسے پی اینڈ ٹی کالونی گزری کی طرح قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ سرکاری اراضی کو پلاٹوں کی لیز اور قانونی شکل دینے کے لئے سابقہ کراچی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے نام سے دستاویزات تیار کی گئیں۔ لیز کے کاغذات میں کے ایم سی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر مظہر خان ولد عزیز خان کو اراضی، پلاٹ کا مالک قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ ایک معاہدہ نامہ تیار کیا گیا، جس میں مظہر خان نے 120 گز کے پلاٹ کی لیز الطاف نگر میں خریدار کو الاٹ کی تھی۔ لیز معاہدہ 2007ء میں کیا گیا، جس کے مطابق سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو (کچی آبادی) نے لیٹر نمبر DO/Rev/KA/CDGK/406/07 کے ذریعے 26 اپریل 2007ء کو مظہر خان ولد عزیز خان، شناختی کارڈ نمبر42201-414237-1 کی جانب سے الطاف نگر کے رہائشی عمران کو پہلی لیز منتقل کی۔ لیز معاہدے کے مطابق پلاٹ نمبر 2 گلشن حسین سیکٹر ساڑھے 11 اورنگی ٹاؤن شپ کی لیز قانونی طور پر عمران نامی شخص کے نام منتقل کی گئی۔ لیز معاہدے میں 200 روپے کے دو، 30 روپے کا ایک اور 5 روپے کا ایک ٹکٹ بھی چسپاں کیا گیا۔ لیز معاہدے کے پہلے صفحے پر ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو کچی آبادی اورنگی ٹاؤن اور دو الگ جگہ پر سب رجسٹرار اورنگی ٹاؤن کی مہریں بھی لگائی گئیں۔ معاہدے کی دستاویز پر علیحدہ علیحدہ چالان نمبر اور تاریخیں بھی درج کی گئیں۔ لیز معاہدے کے دوسرے صفحے پر پلاٹ کی لیز سے متعلق 31 جنوری 1984ء کی قرارداد 273 کا ذکر بھی کیا گیا، جس کے تحت مذکورہ پلاٹ 99 سالہ لیز پردیا گیا۔ ساتھ ہی کے ایم سی/ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے منظور شدہ لے آئوٹ پلان سے متعلق بھی اندراج کیا گیا۔ لیز معاہدے میں کہا گیا کہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے نوٹی فکیشن نمبر SO/VXI/KA/15/81 جو 28 جون 1981ء کو جاری ہوا، کے مطابق مذکورہ سیٹلمنٹ اورنگی ٹاؤن شپ کی کچی آبادی کے طور پر ریگولرائز کرنے کے بعد 99 سالہ لیز پر دی گئی۔ لیز میں پلاٹ نمبر اور شیٹ نمبر بھی درج کئے گئے، تاکہ گلشن ضیاء کے مذکورہ پلاٹوں کو قانونی شکل میں ڈھالا جائے۔ معاہدے میں ہر پلاٹ کو 120 گز کا پلاٹ ظاہر کیا گیا۔ لیز معاہدے میں شرائط و ضوابط کا ذکر بھی کیا گیا، جس میں پلاٹ کی ملکیت 99 سال کی ظاہر کی گئی تھی۔ لیز سند کے طور پر ڈویلپمنٹ چارجز کی مد میں 143 روپے فی اسکوائر گز کے حساب سے 17 ہزار 160 روپے ظاہر کی گئی۔ جبکہ لیز کا سالانہ کرایہ 50 پیسہ فی اسکوائر گز کے لحاظ سے 60 روپے ادا کرنے کے لئے خریدار کو پابند کیا، جو ہر سال جون کی 30 تاریخ سے قبل کرایہ ادا کرنے کا پابند تھا۔ لیز معاہدے میں لیز ٹرانسفر کے حقوق سے متعلق بھی تحریر کیا گیا، جس میں قواعد و ضوابط کو پورا کرنے پر لیز دوسرے شخص کو منتقل کی جا سکتی تھی۔ اس سلسلے میں کہا گیا کہ واجبات کی ادائیگی کی صورت میں لیز کسی دوسرے شخص کے نام بھی منتقل کی جا سکتی ہے۔ لیز معاہدے میں پلاٹ کے استعمال سے متعلق بھی وضاحت کی گئی کہ پلاٹ صرف رہائشی استعمال کے لئے مختص کیا گیا ہے، اسے دیگر استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ سیوریج اور پانی کی لائنوں سے متعلق متعلقہ محکموں سے درخواست کرنے کا ذکر بھی لیز معاہدے میں موجود ہے۔ جس کے تحت تعمیرات مکمل ہوتے ہی سیوریج کی لائنیں مین لائنوں میں منتقل کی جا سکتی تھیں۔ لیز میں الطاف نگر کے ہر الاٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ سیوریج کی مین لائنوں میں اپنے گھروں کی لائنیں پہنچا سکتا ہے، تاکہ صفائی کا خیال رکھا جائے۔ الطاف نگر کے لئے تیار کی گئی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی لیز میں پلاٹ کے حوالے سے بھی 4 نکات بیان کئے گئے، جس میں لیز حاصل کرنے والے کی جانب سے فراڈ، غلط اندراج، دھوکہ دہی پر لیز منسوخی اور دیگر شرائط بیان کی گئی تھیں۔ لیز معاہدہ 7 صفحات پر مشتمل تھا، جس کے تمام صفحات پر سب رجسٹرار اورنگی ٹاؤن کی مہریں لگائی گئی تھیں۔ لیز معاہدے کے ساتھ شیڈول آف پلاٹ، لینڈ سرویئر سائٹ رپورٹ، ڈسٹرکٹ آفیسر اورنگی ٹائون شپ کا لیز سے متعلق سب رجسٹرار کو دیا گیا مکتوب، نیشنل بینک آف پاکستان کا چالان، ایم ایف رول نمبر، درخواست برائے منتقلی پلاٹ، اقرار نامہ، بیان حلفی برائے لیز اور بیان حلفی برائے پلاٹ کی دستاویزات بھی منسلک کی گئی تھیں۔
الطاف نگر کی لیز حاصل کرنے والے کے پاس مذکورہ تمام دستاویز موجود ہیں، جو انہیں اورنگی ٹائون کی ڈسٹرکٹ انتظامیہ نے تیار کرکے دی تھیں۔ لیز معاہدے کے ساتھ پلاٹ کے شیڈول پیپر میں پلاٹ نمبر، شیٹ نمبر، لوکلٹی، ایریا آف پلاٹ، زمین کا استعمال، بانڈڈ، سائٹ پلاٹ، اسکیل اور پلاٹ کا رقبہ بھی ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس پیپر پر لیز لینے والے کے دستخط، نام، تیار کنندہ کا نام اور تصدیق کنندہ کے دستخط بھی کرائے گئے تھے۔ پیپر پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے افسران نے دستخط اور مہریں لگائی تھیں، جن میں لینڈ سرویئر کچی آبادی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو (کچی آبادی) سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر کچی آبادی اورنگی ٹائون شپ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی، ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو (کچی آبادی) سٹی ڈسٹرکٹ کراچی، ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر پلاننگ (ریونیو) کچی آبادی سٹی ڈسٹرکٹ کراچی، ڈسٹرکٹ آفیسر اسکروٹنی اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر پلاننگ شامل تھے۔ اس صفحے کے عقب میں سب رجسٹرار اورنگی ٹائون کے دستخظ اور مہر، لیگل کسلٹنٹ، پلاٹ کے اصل مالک یعنی مظہر خان، ارجنٹ مائیکرو فلمنگ نمبر بمع افسران کے دستخط لیز حاصل حاصل کرنے والے نئے خریدار کو فراہم کے گئے تھے۔ لیز سرویئر سائٹ رپورٹ میں پلاٹ نمبر، شیٹ نمبر، گلشن ضیاء اورنگی ٹائون میں پلاٹ کے اطراف کا ایریا بھی بیان کیا گیا تھا، جس میں پلاٹ کے 2 اطراف 24 فٹ چوڑی روڈ ظاہر کی گئی تھی۔ اس صفحے پر بھی پلاٹ کا کل ایریا اور لیز حاصل کرنے والے سے متعلق تمام تفصیلات درج تھیں۔ اس صفحے پر دو افسران نے دستخط اور مہریں ثبت کی تھیں، جن میں لینڈ سرویئر کی آبادی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر (ریونیو) شامل ہیں۔ سائٹ رپورٹ پر سب رجسٹرار اورنگی ٹائون نے بھی مہر اور دستخط کر رکھے ہیں۔ لیز معاہدے کے ساتھ ڈسٹرکٹ آفیسر اورنگی ٹائون شپ کا سب رجسٹرار اورنگی ٹائون کو بھیجا گیا سرکاری مکتوب نمبر No.DO/OTS/CDGK/406/07 بتاریخ 06 نومبر 2007ء بھی فراہم کیا گیا ہے، جس میں لیز حاصل کرنے والے کے 3 مقامات پر دستخط لئے گئے اور سب رجسٹرار کو اتھارٹی دی گئی کہ وہ مظہر خان کی لیز خریدار کو منتقل کر دے۔ اس مکتوب کی نقل اورنگی ٹائون کے ناظم اور ایڈیشنل ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر (ریونیو) سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کو بھی بھیجی گئی، تاکہ اسے وہ اپنے ریکارڈ میں شامل کر سکیں۔
’’امت‘‘ کو لیز معاہدے کے ساتھ نیشنل بینک آف پاکستان کا ایک چالان بھی ملا، جو 24 ہزار 905 روپے کا ہے۔ مذکورہ رقم 027000-0271000 کے ہیڈ آف اکائونٹ میں جمع ہوئی۔ لیز معاہدے کی دستاویز ات میں 20 روپے کے اسٹماپ پیپر پر بیان حلفی برائے لیز میں خریدار نے لکھا کہ میں مسمی/ مسماۃ ولد/ بنت/ زوجہ شناختی کارڈ نمبر، سکنہ پلاٹ نمبر، شیٹ نمبر، بلاک، سیکٹر نمبر ساڑھے 11 واقع گلشن ضیاء کچی آبادی یونین کونسل نمبر 6 ٹائون اورنگی ٹائون کراچی، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ بیان دیتا/ دیتی ہوں کہ یہ کہ پلاٹ نمبر، شیٹ نمبر 2 بلاک، سیکٹر نمبر ساڑھے 11 واقع گلشن ضیاء کچی آبادی یونین کونسل نمبر، اورنگی ٹائون، کراچی کا/ کی ذاتی مالک و بلاشرکت، غیر قابض و دخیل ہوں۔ اور اس پر اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہوں۔ یہ کہ اس سے قبل اس پلاٹ کی کوئی لیز جاری نہیں ہوئی ہے۔ اور اب پلاٹ مذکورہ کی اپنے نام لیز حاصل کرنے کا درخواست گزار ہوں۔ پلاٹ مذکورہ کی میرے نام سے لیز حاصل کرنے پر کسی بھی شخص/ ادارہ/ عزیز و رشتہ دار و غیرہ کو کوئی اعتراض نہیں۔ مکان ہذا ہر قسم کے خلل و تنازعات سے پاک صاف اور عدالتی چارہ جوئی سے مبرا ہے۔ اور میرے علاوہ، میرا کوئی بھائی/ بہن/ والد/ والدہ/ بیوی/ شوہر/ بیٹی/ بیٹا
اس جائیداد کا یا اس میں کسی حصے کا دعویدار نہیں ہے۔ کسی بھی تنازعہ یا دعویٰ کی صورت میں، یا میرے لیز کے لئے جمع کرائے ہوئے کا غذات جعلی ثابت ہونے کی صورت میں ذمہ دار ہوں گا/ ہوں گی اور ضلعی شہری حکومت کے مجاز آفیسر، عملہ و معاونین متعلقہ سب رجسٹرار، ایڈووکیٹ کو ہر طرح سے مبرا رکھوں گا/ گی۔ اور یہ کہ میں ضلعی شہری حکومت کو اختیار دیتا/ دیتی ہوں کہ کسی بھی غلط بیانی اور دروغ گوئی یا کاغذات کے جعلی ثابت ہونے کی صورت میں لیز ھذا کو یک طرفہ کینسل کر دے اور میرے خلاف قانونی چارہ جوئی عمل میں لائے۔ اور میں لیز ڈیڈ سرینڈر کرنے کا پابند ہوں گا/ ہوں گی۔ یہ کہ لیز فارم میں درج شرائط، قواعد و ضوابط کی پابندی قبول کرتا/ کرتی ہوں۔ اس اقرار نامہ پر اپنی رضا و رغبت سے بلا جبر و اکراہ دستخط ثبت کئے ہیں، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اس کے ساتھ ہی شہری ضلعی حکومت کراچی کی درخواست برائے منتقلی پلاٹ میں لیز حاصل کرنے والے کی طرف سے درخواست دی گئی تھی، جس میں ضلعی آفیسر کچی آبادی کو شہری ضلعی حکومت کراچی کو مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ میں مسمی/ مسماۃ، ولد/ زوجہ حامل شناختی کارڈ نمبر، پلاٹ نمبر، واقع کچی آبادی گلشن ضیاء میں اپنے خاندان کے ساتھ 23 مارچ 1985ء سے پہلے سے رہائش پذیر و قابض ہوں۔ مذکورہ پلاٹ اور اس پر تعمیر شدہ مکان/ دکان/ فیکٹری (جس کی تفصیل درج ذیل ہے) کسی بھی لحاظ سے نہ تو متازعہ ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ پلاٹ کا رقبہ تقریباً 120 مربع گز ہے اور پلاٹ کا استعمال رہائشی/ رہائشی و تجارتی/ کمرشل/ انڈسٹریل/ رفاہی/ مذہبی ہے۔ پلاٹ اور اس پر تعمیر شدہ عمارت میں 23 مارچ 1985ء سے قبل کی رہائش/ قبضہ کے ثبوت کے طور پر بیان حلفی اور اقرار نامہ اس درخواست کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ میرے رہائشی ثبوت درخواست فارم کے ساتھ منسلک ہیں، لہذا پلاٹ ہذا کو میرے نام مستقل کرنے کے لئے ڈیمانڈ نوٹ/ چالان جاری کردیا جائے۔ اس سلسلے میں شہری حکومت کی مقرر کردہ قیمت اور دوسرے واجبات اگر کوئی ہوں مجھے قابل قبول ہیں۔ میں ڈیمانڈ نوٹ چالان جاری ہونے کے ایک ماہ میں رقم شہری ضلعی حکومت کے اکائونٹ نمبر2342-6 بذریعہ پے آرڈر جمع کرادوں گا۔ بصورت دیگر پلاٹ سے دستبردار ہوجائوں گا اور شہری ضلعی حکومت کو جگہ خالی کرانے کا اختیار ہوگا۔ لیز معاہدے کے ساتھ ایک اور 20 روپے کا اسٹامپ پیپر میں بیان حلفی بھی شامل کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ اورنگی ٹائون سیکٹر ساڑھے گیارہ کچی آبادی یونین کونسل نمبر 6، گلشن ضیائ، کراچی، اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ یہ کہ پلاٹ اورنگی سیکٹر ساڑھے گیارہ گلشن ضیاء کچی آبادی کے پلاٹ کا ذاتی مالک و بلاشرکت غیر قابض و دخیل ہوں۔ یہ کہ مکان ہذا ہر قسم کے خلل و تنازعات سے پاک صاف اور مبرا ہے اور میرے علاوہ کوئی اور اس جائیداد کا دعویدار نہیں ہے۔ یہ کہ اس سے قبل اس پلاٹ کی کوئی لیز جاری نہیں ہوئی ہے۔ یہ کہ کسی تنازعہ یا دعویٰ کی صورت میں، میں ذاتی طور پر ذمہ دار رہوں گا اور ضلعی حکومت کو اختیار دیتا ہوں کہ کسی بھی غلط بیانی اور دروغ گوئی کی صورت میں، لیز ہذا کو کینسل کردے اور میرے خلاف قانونی چارہ جوئی عمل میں لائے۔ یہ کہ کسی بھی پلاننگ کی صورت میں منظور شدہ نقشے کے مطابق ضلع شہری حکومت قانونی کارروائی کی مجاز ہوگی۔ اس کے علاوہ 2 فروری 2011ء کا ایک اور اقرار نامہ بھی شامل کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ اورنگی ٹائون سیکٹر ساڑھے گیارہ گلشن ضیائ، کچی آبادی یونین کونسل نمبر 6 کراچی، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ یہ کہ پلاٹ مذکورہ میری ذاتی ملکیت ہے، جس پر میرا قبضہ 1985ء سے قبل کا ہے۔ یہ کہ اس سے قبل پلاٹ ھذا کی کوئی لیز جاری نہیں ہوئی ہے اور پلاٹ ھذا ہر قسم کے خلل و تنازعات سے پاک صاف اور مبرا ہے۔ یہ کہ پلاٹ مذکورہ کی قانونی تعمیرات کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نقشہ کی منظوری کے بعد کی مکمل کردوں گا۔ یہ کہ میں ضلعی شہری حکومت اور لیز میں درج قوانین و ضابطہ کی مکمل پاسداری کروں گا۔ بصورت دیگر متعلقہ ادارے اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ضابطہ کے مطابق میری لیز کو کینسل/ منسوخ کر دے۔ یہ پلاٹ مذکورہ کی لیز میری ذاتی ذمہ داری پر اجراء کی جائے اور کسی بھی قسم کے دعوے یا تنازعے کی صورت میں میری ذاتی ذمہ داری ہوگی۔ یہ کہ اسٹامپ پیپر/ نامہ نمبر 073640 مورخہ8/2/2011 میں درج بیان حلفی/ اقرار نامہ کی پاسداری کرنے کا قانونی طور پر پابند رہوں گا۔ میں نے بالا اقرار نامہ پر دسخط پڑھ کر، سن کر، سمجھ کر اپنی مرضی و رضا سے کئے ہیں، تاکہ سندر ہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف نگر میں آباد تمام پلاٹ مالکان کو متحدہ دہشت گردوں کی جانب سے پابند کیا گیا کہ پلاٹ کی دستاویزات کسی طور بھی کسی شخص یا ادارے کو فراہم نہ کئے جائیں۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ الطاف نگر کے بعد متحدہ دہشت گردوں نے جرمن اسکول، الائیڈ اسکول، نجیب کلینک، جمال اسکول، کورین اسپتال کے اطراف 400 سے زائد پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کے ذریعے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ اورنگی ٹائون کے 5 علاقوں میں بھی ہزاروں گز سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے کے بعد چائنا کٹنگ کی گئی اور 200 سے زائد پلاٹ کاٹے گئے، جنہیں فروخت کر کے کروڑوں روپے متحدہ قیادت کو پہنچائے گئے۔ مذکورہ قبضے میں متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی رہنمائوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اورنگی ٹائون سیکٹر ساڑھے11 میں واقع جرمن اسکول کی 28 ہزار گز کی اراضی پر قبضہ کر کے چائنا کٹنگ کی تیاری کی جارہی ہے۔ مذکورہ اسکول 1974ء میںقائم کیا گیا تھا، جسے میری ٹرسٹ نامی این جی او کے حوالے کیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے مذکورہ ٹرسٹ کو اراضی اسکول اور میڈیکل کالج و اسپتال بنانے کے لئے الاٹ کی گئی تھی۔ اراضی کا کل رقبہ 68 ہزار گز پر مشتمل ہے۔ میری ٹرسٹ این جی او نے اس اراضی پر جرمن اسکول کے نام سے ادارہ قائم کیا، جہاں علاقے کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکول کے لئے گرائونڈ بھی بنایا گیا تھا، تاکہ بچوں کو ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی تربیت بھی دی جاسکے اور بچوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جاسکے۔ تاہم 1992ء کے آپریشن کے دوران حالات خراب رہنے کی وجہ سے بچوں نے اسکول کا رخ کرنا بند کر دیا اور پھر اسکول کو تالا لگ گیا۔ بعد ازاں حالات کنٹرول میں آنے کے بعد میری ٹرسٹ کی جانب سے اسکول دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ٹرسٹ کی جانب سے 40 ہزار گز کی اراضی کا چالان بھی جمع کرایا گیا تھا اور 28 ہزار گز کی اراضی کا چالان جمع نہیں کرایا جاسکا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ان دنوں 28 ہزار گز کی اراضی خالی پڑی ہے، جس پر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے قبضے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مگر میری ٹرسٹ کے عہدیداران متحدہ کے قبضہ گروپ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان قبضے کو لے کر جنگ چل رہی ہے۔ کیونکہ 1974ء میں حکومت کی جانب سے میری ٹرسٹ کو جگہ الاٹ کی گئی تھی اور ٹرسٹ کے عہدیداران مذکورہ جگہ پر اسکول کو دوبارہ بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جبکہ اسی جگہ پر قبضہ مافیا پلاٹنگ کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے اور اراضی پر پلاٹوں کی مارکنگ بھی کی جاچکی ہے۔ جس پر قبضہ مافیا نے فی پلاٹ 10 سے 15 لاکھ روپے کی بکنگ بھی شروع کردی ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ مذکورہ جگہ پر قبضہ کرنے والوں کو علاقہ پولیس کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ جرمن اسکول کے احاطے میں بدھ کے روز بازار بھی لگایا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دو درجن سے زائد پلاٹوں کی چائنا کٹنگ الائیڈ اسکول کے اطراف بھی کی گئی ہے۔ یہاں فی پلاٹ 5 لاکھ روپے میں فروخت کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح جمال اسکول کے اطراف بھی سرکاری اراضی پر 50 پلاٹوں کو کاٹا گیا ہے اور یہاں بھی فی پلاٹ 5 سے 8 لاکھ روپے میں فروخت کئے جارہے ہیں۔ اورنگی کے علاقے ساڑھے 11 میں واقع نجیب کلینک کے اطراف بھی 20 سے زائد پلاٹوں پر چائنا کٹنگ کی گئی ہے، جسے مارکیٹ میں فی پلاٹ 6 سے 8 لاکھ روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ غیر قانونی پلاٹوں کی جعلی فائلیں بھی تیار کی گئی ہیں، جنہیں الطاف نگر کے کاغذات کی طرح تیار کیا گیا ہے، تاکہ سادہ لوح افراد کو فروخت کیاجاسکے۔ ذرائع نے بتایا کہ اورنگی کے علاقے میں ہزاروں غیر قانونی پلاٹوں کو واگزار کرانے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ تین برس سے جاری آپریشن میں بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ الطاف نگر کو قانونی شکل دینے والے سرکاری افسران آج بھی انہی عہدوں پر براجمان ہیں اور کوئی ادارہ بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے وہی افسران بیک ڈیٹ میں فی پلاٹ کاغذات بناکر دینے کے لئے محض 50 ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭