اقبال اعوان
کے ایم سی کے آپریشن کے باعث خشک میوہ جات کا بزنس بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ اور جوڑیا بازار کی ہول سیل مارکیٹیں آپریشن کی لپیٹ میں آنے سے ڈرائی فروٹ کے تاجروں کا سیزن برباد ہوگیا ہے، جس کے سبب گزشتہ سال کی نسبت خشک میوے 45 فیصد تک مہنگے ہوگئے ہیں۔ جبکہ غریب طبقہ صرف مونگ پھلی، ریوڑیوں اور چھوہاروں وغیرہ پر گزارا کر رہا ہے۔ چلغوزے، پستہ، کاجو، انجیر، اخروٹ اور بادام ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ خشک میوہ جات کی افغانستان، ایران اور بھارت سے اسمگلنگ بڑھنے کے بعد تاجر من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ اسی طرح ڈالر مہنگا ہونے پر ڈرائی فروٹس پر بھی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس میں اضافہ ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ خشک میوہ جات 6 سے زائد ممالک سے بھی منگوائے جاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو خشک میوہ جات کے تاجروں نے بتایا کہ اس سال کا سیزن خراب ہو چکا ہے اور منافع حاصل کرنا تو درکنار، اپنی لگائی ہوئی رقوم حاصل کرنا بھی مشکل لگ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، جس کا سلسلہ جاری ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اندر خشک میوہ جات کی 100 سے زائد دکانیں تھیں جہاں سے شہری سرد موسم کے آغاز پر خریداری کرتے تھے۔ یہ پوری مارکیٹ آپریشن کے دوران مسمار کر دی گئی اور خشک میوہ جات کے ہول سیل تاجر اپنی دکانوں سے محروم ہوگئے۔ دوسری جانب اولڈ سٹی ایریا میں تا حال آپریشن جاری ہے۔ وہاں بھی جونا مارکیٹ میں خشک میوہ جات کی ہول سیل مارکیٹ بھی زد میں آچکی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ کراچی خشک میووں کا سیزن اکتوبر سے شروع ہو جاتا ہے اور دسمبر کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ تاجروں کے مطابق تجاوزات کے خلاف آپریشن نے جو صورت حال پیدا کی ہے، اس سے ہول سیل تاجروں کو مالی نقصان ہوا ہے اور وہ شہر کے چھوٹے دکانداروں کو اشیا مہنگی دینے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے اشیا مہنگی فروخت ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈالر کے ریٹ بھی بڑھ گئے اور کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے اس بار عوام کو ڈرائی فروٹ 45 فیصد تک مہنگے ملیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ لنڈا بازار کے کاروبار کی طرح خشک میوہ جات کا سیزن بھی برباد ہوچکا ہے۔ دکانداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت، ایران اور افغانستان سے خشک میوے بڑے پیمانے پر اسمگل کرکے لائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ حیدرآباد میں کسٹم حکام نے کئی گاڑیوں میں لدے خشک میوہ جات کے کارٹن قبضے میں لئے تھے، جو افغانستان سے بھارت بھیجے گئے تھے لیکن ان کو بھارت کے بجائے کراچی لایا جا رہا تھا۔
جوڑیا بازار کے تاجر شہاب الدین کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کاجو انڈیا سے منگوایا جاتا ہے۔ جبکہ ویت نام سے منگوانے پر کاجو سستا پڑتا ہے۔ اسی طرح اخروٹ پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن امریکہ کے بعد اب چائنا سے بھی منگوایا جا رہا ہے۔ آلو بخارا اور بادام امریکہ کے علاوہ افغانستان سے بھی آتا ہے۔ دکاندار رفیق کا کہنا تھا کہ یہ سیزن بھاری پڑا ہے کہ ہر طرف تجاوزات کے خلاف آپریشن میں پوری پوری مارکیٹیں گرائی جا رہی ہیں۔ خشک میوہ جات کا اسٹاک منگوا کر دکانداروں نے بھاری رقوم پھنسا لی ہیں۔ اب یہ مال چھوٹی چھوٹی دکانوں، ٹھیلے اور پتھارے والوں کو سپلائی کر رہے ہیں۔ چونکہ حکومتی سطح پر اس کاروبار کی مانیٹرنگ نہیں، اس لئے تاجر من مانی کر رہے ہیں اور اپنا نقصان پورا کر رہے ہیں۔ مونگ پھلی ہول سیل میں 240 سے 300 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے اور ٹھیلے والے 400 سے 500 روپے کلو تک فروخت کر رہے ہیں۔ مختلف اقسام کی خشک کھجور 180 روپے کلو سے 400 روپے کلو تک ہول سیل پر مل رہی ہے۔ جبکہ ٹھیلے والے 250 سے 600 روپے کلو تک دے رہے ہیں۔ دکاندار گوہر کا کہنا تھا کہ آج کل افراتفری چل رہی ہے۔ اس مرتبہ سیزن میں منافع کم ہوگا، بلکہ نقصان کا خدشہ بھی ہے۔ دکان دار امیر بخش کا کہنا تھا کہ افغانستان، امریکہ، سعودیہ، عراق، سری لنکا، ایران، چین، ویت نام اور بھارت سے خشک میوہ جات منگوائے جاتے ہیں۔ ان میوہ جات میں انجیر، کاجو، پستہ، کھجور، بادام، اخروٹ، چلغوزے، خوبانی اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ آج کل کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس بڑھ گئے ہیں، جس کے سبب اخراجات زیادہ آرہے ہیں۔ ڈالر بھی مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ دکاندار محمد حسیب کا کہنا تھا کہ ہول سیل میں کاجو 1600 روپے کلو سے دو ہزار روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ پستہ ثابت 1600 روپے کلو، جبکہ اس کی گری 2800 روپے۔ اسی طرح چلغوزے 2400 سو روپے سے 4500 سو روپے یا اس سے بھی مہنگے فروخت ہو رہے ہیں۔ اخروٹ ثابت 500 سے 800 روپے کلو اور گری 1200 سے زائد قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ خشک خوبانی 360 روپے کلو، انجیر 1200 روپے کلو میں دستیاب ہے۔ دکان دار عبدالحمید کا کہنا تھا کہ اس بار سیزن پر زیادہ منافع کا سوچا تھا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن نے سیزن درہم برہم کر دیا۔ دکانیں ختم ہونے سے کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔ ورنہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے تاجر بھی کراچی کی ایمپریس مارکیٹ سے خشک میوہ جات لیتے تھے۔ تاجر جمال کا کہنا تھا کہ جوڑیا بازار میں بھی آپریشن شروع ہو چکا ہے۔ ٹھیلے، پتھارے والے شہر بھر میں اشیا کی قلت دیکھ کر مہنگا فروخت کر رہے ہیں۔ اکبر، کامران اور جبار نامی تاجروں کا کہنا تھا کہ بڑے تاجر بیرون ملک سے مال منگواتے ہیں اور ان کا کروڑوں روپے کا مال گوداموں میں موجود ہے۔ تاہم سیزن خراب ہو چکا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post