اسلام آباد/لاہور(ناصر عباسی/اختر صدیقی/امت نیوز) مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت سازی کیلئے بے چین عمران خان کیلئے پرویز الہی نے مشکلات کھڑی کر دیں۔دونوں جگہ نمبر گیم پھنسنےکا فائدہ اٹھاتے ہوئے ق لیگ نے متعدد مطالبات رکھ دیئے ہیں، جن میں سرفہرست یہ ہے کہ انہیں وزیر اعلی پنجاب یا نائب وزیر اعظم میں سے کوئی ایک عہدہ دیا جائے۔واضح رہے کہ پنجاب کی تاریخ میں حامد ناصر چٹھہ کی جماعت نے بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی سے سیاسی اتحاد کر کے انتہائی کم نشستوں کے باوجود وزارت اعلیٰ پنجاب کا منصب اپنے پاس رکھا تھا۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ پرویز الہی بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے منظور وٹو کی طرح آزاد امیدواروں کو ملا کر وزیر اعلی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مطالبات پی ٹی آئی قیادت تک پہنچا دیئے گئے ہیں اور انہوں نے مشاورت کیلئے کچھ وقت مانگا ہے۔ بعض دیگر ذرائع کا کہنا ہےکہ اگرچہ پرویز الہی کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ہیں ،تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا تو ان کی خواہش ہوگی کہ پی ٹی آئی کے رکن میجر(ر)طاہر صادق کووزیراعلیٰ پنجاب بنوادیں، کیونکہ وہ ان کے بہنوئی ہیں ۔اس لئے اگر وہ پنجاب کے حکمران بنیں ،تب بھی بات گھر میں ہی رہے گی۔باخبر ذرائع کے مطابق بھاری اکثریت ملنے کے زعم میں تحریک انصاف کی جانب سے آزاد امیدواروں سے فوری رابطہ نہ کئے جانے کا فائدہ سابق وزیر اعلی ٰپنجاب نے اٹھایا اور ان کی اکثریت کوسہانے خواب دکھا کر ہمنوا بنالیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین، علیم خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی سرتوڑ کوشش اور طیاروں کی اڑانیں مطلوبہ نتائج نہیں لاسکیں۔5 روز گزرنے کے بعد بھی پی ٹی آئی کو صرف 5 ارکان کی واضح حمایت مل سکی، جن میں جنوبی پنجاب کے2 ایسے ارکان شامل ہیں ،جو پی ٹی آئی سے ہی وابستہ تھے اور ٹکٹوں کی تقسیم پر ناراض ہو کر آزاد کھڑے ہوئے تھے۔ دوسری جانب ن لیگ کا دعوی ٰہے کہ انہیں 9 آزاد ارکان کی حمایت مل چکی ہے۔حمزہ شہباز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں حکومت بنانے کا حق قوم نے ہمیں دیا ، اپنے مینڈیٹ پر پورا پہرہ دیں گے ۔واضح رہے کہ پنجاب میں حکومت سازی کیلئے براہ راست منتخب 149 ارکان جب کہ مخصوص نشستوں کو ملانے کی صورت میں 185 کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ دونوں بڑی جماعتوں کیلئے مشکل ہے۔ ن لیگ 129 ارکان کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، جبکہ تحریک انصاف کا5 آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد 128 نشستوں کے ساتھ دوسرا نمبر ہے۔ ذرائع کا دعوی ٰہے کہ پی پی 46 گوجرانوالہ سے کامیاب آزاد امیدوار سعید الحسن آج بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کے بعد شمولیت کا اعلان کر دیں گے۔ اس طرح پی ٹی آئی کی عددی حیثیت بھی 129 ہو جائے گی۔ ق لیگ کے 8 ارکان ملانے کے باجود تعداد 137 بن رہی ہے اور اسے ابھی مزید 12 ارکان کی ضرورت ہے، تاہم پارٹی رہنما نعیم الحق نے دعوی ٰکیا ہے کہ مطلوبہ تعداد آج تک حاصل ہو جائے گی۔ دوسری جانب ن لیگی ذرائع کا دعوی ٰہے کہ انہیں 9 آزاد ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے ،تاہم ان کے نام ظاہر نہیں کئے گئے۔ جس کے بعد پی پی کے 6 ارکان ساتھ ملانے کی صورت میں ن لیگ کو مزید صرف 3آزاد ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ بعض دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان نے شوکت بھٹی سمیت 2 آزاد ارکان سے خود ملاقات کر کے میاں شہباز شریف سے ان کی فون پر بات کرائی ہے اور وہ نواز لیگ کا ساتھ دیں گے۔ اسی طرح سیالکوٹ سے آزاد رکن صوبائی اسمبلی رانا لیاقت نے خواجہ آسف سے ملاقات کی ہے۔ وہ بھی نواز لیگ کے ساتھ آرہے ہیں۔ اوکاڑہ سے منتخب ہونے والے ایک اور رکن پنجاب اسمبلی آج شہباز شریف سے ملاقات کریں گے۔ چنیوٹ سے نمائندہ ’’امت‘‘ کے مطابق ن لیگ کے مرکزی رہنما رکن قومی اسمبلی راناثنا اللہ پی پی 94 سے منتخب رکن اسمبلی مولانا محمد الیاس چنیوٹی کے ہمراہ حلقہ پی پی 93سے جیتنےوالے آزاد امیدوار مہر تیمور امجد لالی کے گھر پہنچ گئےاور مسلم لیگ ن کی حمایت کے لیے بات چیت کی۔تاہم انہوں فوری طور پرکسی یقین دہانی کے بجائے بتایاکہ وہ دوستوں سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سازی میں آزاد ارکان کو اب بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ق لیگ کے پرویز الہی انہیں اپنے لئے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ منگل یا بدھ کے روز ان کی اس سلسلے میں عمران خان سے ملاقات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں پتہ کہ پرویز الہٰی کیا چاہتے ہیں ؟ ان سے ہماری سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ پنجاب تحریک انصاف سے ہی ہوگا۔ علیم خان شروع سے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار ہیں اور اب ان کے ساتھ کچھ اور نام بھی لئے جارہے ہیں۔ عمران خان کل تک اس حوالے سے فیصلہ کرلیں گے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لیے (ق)لیگ مجبوری بن چکی ہے اور وہ اس کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ،(ق)لیگ کی جانب سے وزارت اعلی کٰا عہدہ دینے پر بضد رہنے اور پی ٹی آئی کی جانب سے مخالفت کی صورت میں اٹک سےمنتخب پی ٹی آئی رکن میجر (ر)طاہر صادق متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔مشاورت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں کی اکثریت کی رائے تھی کہ وزارت اعلی ٰکا عہدہ جماعت کو اپنے پاس رکھنا چاہیے ،تاکہ مستقبل میں پی ٹی آئی صوبے میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم اور مضبوط بناسکےتاہم صوبے میں حکومت سازی کے لیے ممبران اسمبلی کی مقررہ تعداد نہ ہونے پر مختلف آپشنز پر غور کیا گیا ۔(ق)لیگ کو مرکز اور صوبے میں 4وزارتیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی (ق)لیگ کی قیادت سے ملاقات میں انہیں پی ٹی آئی کے فیصلے سے آگاہ کیا جائیگا، جبکہ وزارت اعلی کا عہدہ جنوبی پنجاب کو دینے کے لیے پی ٹی آئی میں مشاورت ہوئی ہے۔جبکہ راولپنڈی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہونے والے فیضان الحسن چوہان کو وزیر اطلاعات بنائے جانے کا امکان ہے اس سلسلے میں انہیں گزشتہ روز بنی گالہ طلب بھی کیا گیا تھا دوسری جانب پنجاب میں وزارت اعلی کے لیے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی گروپوں کی جانب سے کھینچا تانی سے پریشان پی ٹی آئی سندھ اور پنجاب کے بعض رہنماؤں کی جانب سے مخالف دھڑوں کو وزارت اعلی کا عہدہ دینے کی صورت میں پی ٹی آئی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے غیر متنازعہ شخص کو وزارت اعلی سونپنےکا مشورہ دیا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق پنجاب میں حکومت سازی کیلئے ق لیگ نے ن لیگ کو صاف انکار کردیا ہے۔ یہ فیصلہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے ہمیشہ مفادات کے لئے رابطہ کیا، ہم تحریکِ انصاف کے اتحادی ہیں اور اس اتحاد کو اب مزید مضبوط کیا جائے گا ، مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں گے۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ق لیگ کی قیادت سےرابطہ کیا تھا اور پنجاب میں مرضی کا عہدہ دینے کی بھی پیش کش کی تھی۔ دریں اثنا مسلم لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ پنجاب میں حکومت ہم بنائیں گے یہ حق قوم نے ہمیں دیا ، اپنے مینڈیٹ پر پورا پہرہ دیں گے ۔نو منتخب ارکان سے ملاقاتوں میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بدترین دھاندلی کے باوجود اتنی سیٹیں ملنا معجزے سے کم نہیں، دوبارہ گنتی والے حلقوں میں ن لیگ جیت رہی ہے۔ایک اور ن لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہمارا حق مارا جا رہا ہے، ارکان کو کبھی چمک اور کبھی دھمک سے ورغلایا جا رہا ہے۔