انٹرنیٹ کے کاپی رائٹ قوانین سخت کرنے کی تیاری

0

سدھارتھ شری واستو
انٹرنیٹ کے غلط استعمال، کاپی رائٹس اور ڈیٹا شیئرنگ کے نئے یورپی قوانین لاگو کرنے کیلئے متعدد ممالک میں بحث جاری ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے یورپی قوانین کے آرٹیکلز 11 اور 13 کو لاگو کرنے سے نہ صرف دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا استعمال کم ہوجائے گا بلکہ صارفین ایک دوسرے کا ڈیٹا، تصاویر، ویڈیوز سمیت متعدد مواد کو بغیر اجازت شیئر بھی نہیں کرسکیں گے۔ جبکہ یوٹیوب سمیت تمام سوشل سائٹس کے استعمال کنندگان ایک دوسرے کو نت نئے آئیڈیاز اور تخلیقی تصورات بھی پیش نہیں کرپائیں گے۔ تاہم یورپی یونین کے تحت نئے ترمیمی قوانین کے حامی اراکین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ نئے ترمیمات کے تحت کاپی رائٹس قوانین شدت کے ساتھ لاگو اور رائج ہو جائیں گے اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر ایک دوسرے کا تخلیقی مواد چُرایا یا بلا اجازت کاپی نہیں کیا جاسکے گا، جس کے نتیجہ میں تخلیقی ماہرین اور ایکسپرٹ حضرات کی حق تلفی نہیں ہوسکے گی اور کسی بھی میوزک، فلم، ڈرامہ، تصویر یا سافٹ ویئر کو آن لائن ادائیگی کے بغیر کاپی، شیئر اور ڈاؤن لوڈ نہیں کیا جاسکے گا۔ جس سے انٹرنیٹ محفوظ بھی ہوگا اور یہ ’’سنگل ڈیجیٹل مارکیٹ‘‘ بن جائے گا، جہاں حقیقی آئیڈیاز دینے والوں کے حقوق کو تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ یورپی یونین کے نئے ترمیم شدہ آرٹیکل 11 کے تحت ان تمام پبلشرز اور تخلیق کنندگان کو اس بات کا حق حاصل ہوجائے گا کہ وہ اپنا تحقیقی و تخلیقی مواد یا ایکسکلوسِو خبرکو بلا اجازت شیئر کرنے والے افراد اور اداروں کو عدالتوں میں گھسیٹیں اور ان سے کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کا جرمانہ وصولیں۔ جبکہ مستند ویب سائٹس گوگل، وکی پیڈیا اور یوٹیوب سمیت دیگر اداروں کی آمدن میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا، لیکن اس کے منفی اثرات یہ بھی ہیں کہ ان سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم پر نیا تخلیقی مواد آنا بند ہوجائے گا۔ یورپی یونین کی نئی پابندیوں کے حوالہ سے اشارہ دیا گیا ہے کہ اس کے تحت یوٹیوب سمیت تمام اہم سائیٹس پر ’’اپ لوڈ فلٹر‘‘ لگایا جائے گا، جو کسی بھی ویڈیو یا آرٹیکل کو اپلوڈ کرنے سے قبل استفسار کرے گا کہ کیا آپ نے اس کا کاپی رائٹ لیا ہے یا اپنا تخلیقی مواد اپلوڈ کرنے کیلئے لائسنس حاصل کیا ہے۔ واضح رہے کہ یوٹیوب کے ایگزیکٹو سمیت عالمی انٹرنیٹ ایکسپرٹس نے بھی یورپی یونین کی پابندی والے نئے قوانین آرٹیکل11 اور 13 کومتنازع قرار دیا ہے اور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اس عمل سے انٹرنیٹ صارفین آن لائن سرگرمیوں سے دور ہوجائیں گے، جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی اس سلسلہ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک سرکردہ رکن اورعالمی ادارے ’’فریڈم آف اوپینین اینڈ ایکسپریشن‘‘ کی سربراہ جولیا ریدا نے نئے ترمیمی قوانین کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا منظور شدہ آرٹیکل 13 اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں ٹوئٹر پر ایک مہم #SaveYourInternet کے نام سے ہیش ٹیگ کی جارہی ہے جس میں عالمی صارفین نے یورپی یونین کے نئے متنازع ترمیمی آرٹیکلز کی مذمت کی ہے۔ عالمی افق پر کارگزار 50 سے زائد ماہرین اور کلیدی عہدوں پر فائز افراد نے یورپی یونین پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تاجانی کو ایک تحریری خط میں مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ ترمیمات کو واپس لیا جائے ورنہ انٹرنیٹ سمیت اظہار رائے کی آزادی کا خاتمہ یقینی ہے۔ اس خط پر وک پیڈیا کے بانی جمی ویلز سمیت سر برنرس لیٹم کے دستخط ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ ترمیمات اخلاقی اور قانونی اعتبار سے درست نہیں۔ یورپی یونین کی نئی ترمیمات کے حوالہ سے انفرادی طور پر شیئرنگ کرنے والوں کیلئے کوئی قدغن نہیں ہے، لیکن اداروں اور کمپنیوں سمیت اجتماعی پلیٹ فارم کیلئے کاپی رائٹس اور شیئرنگ کی پابندی سخت ہوگی۔ یورپی یونین کی نئی پابندیوں کی زد میں عالمی تعلیمی ادارے اور آن لائن یونیورسٹیاں بھی آئیں گی۔ پرائمری، سیکنڈری، ووکیشنل اور ہائر سیکنڈری سمیت یونیورسٹی لیول کی تعلیم کے مواد کو صرف اسی بنیاد پر شیئر کرنے کی اجازت ہوگی کہ یہ شیئرنگ ’’نان کمرشل‘‘ بنیاد پر ہوگی اور اگر کمرشل بنیاد پر کسی بھی قسم کی شیئرنگ کی گئی تو یہ قانون کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔ کئی میڈیا آئوٹ لٹس کا دعویٰ ہے کہ اگر یورپی یونین کا متنازع ترمیمی قانون آرٹیکل11 اور 13 لاگو کیا جائے گا تو اس سے دنیا بھر کے صارفین کیلئے news google بھی پڑھنا اور شیئر کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں مزید علم ہوا ہے کہ یورپی یونین مجوزہ قوانین کے تحت کاپی رائٹس اور شیئرنگ قوانین کو لاگو کرنے کے بعد رکن یورپی ممالک کو اس بات کی آزادی دے گی کہ وہ اپنے مقامی حالات و منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے ذیلی قوانین بنائیں اور میڈیا سمیت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ مواد کی شیئرنگ، کاپی رائٹس اور ادائیگیوں کا معاملہ طے کریں۔ مثال کے طور پر یوٹیوب انتظامیہ کسی بھی قسم کا مواد نئے ترمیمی قوانین کے تحت شیئر کرنے کی اجازت دیتی ہے اور یورپی یونین کو اس ضمن میں علم ہوگیا کہ متعلقہ سائٹ نے اس قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو یوٹیوب کو پابند کیا جائے گا کہ وہ متعلقہ مواد اور ویڈیوز اپنی سائیٹ سے delete ڈیلیٹ کردے اوراگر ممنوع مواد ڈیلیٹ نہیں کیا گیا تو یورپی یونین جرمانہ اور پابندی بھی عائد کرسکتی ہے اور اس سلسلہ میں تمام سماجی رابطوں کی سائٹس کو قانون کے دائرہ میں لایا جائے گا۔ لندن میں منعقدہ پروگرام ’’پولیٹکس لائیو‘‘ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سائنس فکشن رائٹرز سمیت میوزک کمپنیوں کے ماہرین نے مجوزہ یورپی قوانین کو انتہائی سخت قرار دیا اور اس کو لاگو کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یورپی قوانین کے تحت memes یعنی خیالات اور نظریات سمیت اظہار رائے کی پابندی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جس کے نتیجہ میں کسی بھی خطہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد اپنے خیالات کو ’’کاپی رائٹس ‘‘کے بغیر شیئر نہیں کرسکے گا۔ انٹرنیٹ کی کیفیت ایک ایسے جال کی سی ہوجائے گی جہاں آگے بڑھنے یا خیالات اور تصورات سمیت ڈیجیٹل مواد مثلاً ویڈیوز اور تصاویر سمیت تحریری مضامین اور تحقیقی آرٹیکلز کو پیش کرنے پر بھی پابندی ہوگی اور یورپی یونین کے تحت انٹرنیٹ کو ’’سنگل ڈیجیٹل مارکیٹ ‘‘ بنا دیا جائے گا ،جہاں ڈیٹا کا غلط استعمال اس کے ذمہ داروں کو ہزاروں یورو کے جرمانہ اور کمپنیوں کی بندش سمیت دیگر سزائوںکا مستوجب قرار دے گا۔ اس سلسلہ میں معروف برطانوی جریدے دی وائرڈ کا کہنا ہے کہ ترمیم کی زد میں سب سے زیادہ مقبول سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر آئیں گی جہاں ایک منٹ میں لاکھوں خیالات اور تصورات سمیت کروڑوں اقسام کا ڈیٹا، ویڈیوز، تصاویر، فائلز اور چیزیں شیئر کی جاتی ہیں۔ یورپی یونین کے نئے منظور شدہ ترمیمی آرٹیکل 11 کو ماہرین نے ’’لنک ٹیکس‘‘ قرار دیا ہے اور دوسرے آرٹیکل13 کو ’’مے مے بین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ، جرمنی فرانس اور کچھ ممالک نے یورپی یونین/پارلیمنٹ کے اندر اس سلسلہ میں منظور کی جانے والی قانونی ترمیمات کی حمایت نہیں کی ہے۔ برطانوی تجزیاتی جریدے اینڈروئیڈ پٹ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ نئے یورپی قوانین سے مکمل اتفاق نہ کرنے والے ممالک چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات حاصل کریں اور بحث و مباحثہ کے بعد 2019 میں اس کی نئی ووٹنگ پر تیار ہوجائیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More