اسلام آباد(نمائندہ امت)وفاقی وزیرسائنس وٹیکنالوجی اعظم سواتی کے لیے مشکل گھڑی آگئی تاہم انھوں نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کومستردکرنے اور اپنے موقف پر ڈٹا رہنے کافیصلہ کیاہے ۔آرٹیکل 62ون ایف پرعدالت کی جانب سے جواب مانگنے پر غیر مشروط معافی مانگنے بارے فیصلہ کیاجائیگا۔حکومت نے بھی ذاتی معاملات میں زیادہ ساتھ دینے سے معذوری ظاہر کردی ،اعظم سواتی اپناجواب آج بدھ کوسپریم کورٹ میں جمع کرائیں گے ۔سپریم کورٹ نے جواب کے لیے اعظم سواتی کو24گھنٹوں کی مہلت دے رکھی ہے ۔معتبرذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاہے کہ وفاقی وزیرسائنس وٹیکنالوجی اعظم سواتی پرآرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے اور وہ بہت زیادہ پریشانی کاشکار ہیں ۔انھوں نے اس کیس میں وفاقی کابینہ کے معززارکان کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان سے بھی مشاورت کی ہے تاہم انھیں یہی جواب دیاگیاہے کہ اپنے ذاتی معاملات میں حکومت کونہ لاؤپہلے بھی کافی سبکی ہوچکی ہے اس لیے جوکچھ بھی کرناہے سوچ سمجھ کرکریں ۔اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان سے بھی آئینی وقانونی نکات پر مشاورت مکمل کرلی ہے زیادہ ترساتھیوں نے مشورہ دیاہے کہ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیں اور آئندہ کے لیے بھی یقین دہانی کرادیں ۔تاہم اعظم سواتی نے اپنے موقف پرڈٹے رہنے کافیصلہ کرتے ہوئے اسی ضمن میں جواب تیار کرنے کے لیے اپنے وکیل کوہدایات جاری کردی ہیں ۔اس دوران انھوں نے اپنے وکیل بیرسٹرعلی ظفرسے سپریم کورٹ میں طویل مشاورت بھی کی ہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ اعظم سواتی سے چونکہ فی الوقت مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر جواب مانگاگیاہے اس لیے انھوں نے اپنے جواب میں کمیٹی کے فیصلے کویکسر مستردکردیاہے اور کہاہے کہ جے آئی ٹی ارکان نے ان کے خلاف جوفیصلہ دیاہے وہ اس کومستردکرتے ہیں ۔کمیٹی نے شفاف تحقیقات نہیں کی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جے آئی ٹی ارکان پر عدالت میں رپورٹ پر جرح کی جائے کیونکہ ایساکرناان کاآئینی وقانونی حق ہے اس لیے وہ اپنایہ حق استعما ل کررہے ہیں ۔اس بارے انھوں نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں اور زیر سماعت اہم مقدما ت کے حوالے بھی دیے ہیں جس میں انھو ں نے کہاکہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف پاناماکیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تحقیقات کی تھیں اور ان کی رپورٹ پر ہی عدالت اس کافیصلہ دیاتھامگر اب اس جے آئی ٹی ارکان پراحتساب عدالت میں جرح کی جارہی ہے اور تمام ارکان کی جانب سے سربراہ سابق جے آئی ٹی واجدضیاء تمام تر جرح کااور دیگر معاملات کاسامناکررہے ہیں اگر وہاں ایساہوسکتاہے تواس کیس میں بھی جے آئی ٹی ارکان کے معاملے کاجائزہ لیاجاسکتاہے ۔جواب میں عدالت کی جانب سے جوبھی نکات اٹھائے گئے ہیں ان کابھی جواب دیاگیاہے جواب میں آرٹیکل 10اے کا حوالہ دیتے ہوئے شفاف ٹرائل کی ضمانت دینے کی بھی درخواست بھی کی گئی ہے اور کہاگیاہے کہ جہاں جے آئی ٹی کی جانب سے تحقیقات کرناان کاعدالت کی جانب سے دیے گئے حکم کے تحت حق ہے اسی طرح سے ان ارکان کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھاناان کاآئینی وقانونی حق ہے انھو ں نے کبھی بھی اپنے مقام ومرتبے کوسیاسی مقاصدکے لیے استعمال نہیں کیاانھوں نے قانون کی پاسداری کی ہے اور جوکچھ ان کے خلاف تیار کیاگیاہے وہ قرین انصاف نہیں۔ اس لیے جے آئی ٹی کی رپورٹ کومستردکرتے ہیں اور خود کوعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں عدالت اس ضمن میں جوبھی فیصلہ کرے گی اس پر عمل کیاجائیگا۔وفاقی وزیرسائنس وٹیکنالوجی اعظم سواتی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفرنے’’ امت‘‘ سے گفتگومیں بتایاکہ انھوں نے اپنے موکل کی ہدایت کی روشنی میں جواب تیار کرلیاہے جس میں جے آئی ٹی کے دائرہ کار اور اس کے رپورٹ پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ۔انھوں نے بتایاکہ ان کے موکل نے کہاہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں وہ درست ہیں اور انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ جہاں تک آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی بات ہے تواس میں ابھی تک عدالت نے ہمیں نوٹس جاری نہیں کیے اگر نوٹس جاری کیے گئے تواس کاجائزہ لیں گے اور اس کاسامناکریں گے ۔