قسط نمبر72
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
عین اسی وقت ایک فلک شگاف دھماکا فضا میں گونجا۔ لیکن گاڑی کی باڈی کی اوٹ میں ہونے کی وجہ سے میں نشانہ بننے سے محفوظ رہا۔ فوراً ہی دوسرا فائر ہوا۔ لیکن تب تک میں کھیت میں گھس چکا تھا اور گنّوں کو دونوں ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے چند ہی لمحوں میں اندازہ ہو گیا کہ یہ کتنا کٹھن کام ہے۔ اندھیرے کھیت میں ہر گنا سخت لاٹھی کی طرح راستہ روکنے پر کمر بستہ تھا اور انہیں ہٹا کر درمیان سے راستہ بنانے کی کوشش سے ہاتھوں اور جسم کے دیگرکھلے ہوئے حصوں پر خراشیں آ رہی تھیں۔ آگے بڑھنے کی رفتار کافی سست تھی اور سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہر قدم کے ساتھ شور پیدا ہو رہا تھا اور ہلچل پیدا ہو رہی تھی۔
ہر قدم پر سخت رکاوٹ کے باوجود میں نے اپنی رفتار ممکنہ حد تک تیز رکھی ہوئی تھی۔ لیکن مجھے اندیشہ تھا کہ غالباً سورن سنگھ نامی بندوق بردار کارندہ اور بکرم جیت سنگھ میرے تعاقب میں کھیت میں گھسے تو میں بہت زیادہ فاصلہ طے نہیں کر سکا ہوں گا۔ کچھ ہی دیر میں میرے خدشے کی تصدیق ہوگئی۔ میں نے سورن سنگھ کی بلند للکاریں اور غلیظ گالیاں سنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گنّوں کے ہٹائے جانے اور اکا دکا گنے کے ٹوٹنے کی بھی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مجھے بکرم کی آواز سنائی نہیں دی، لیکن سورن سنگھ مسلسل اس سے مخاطب ہوتے ہوئے مجھے مار گرانے کے دعویٰ کر رہا تھا۔ ان کی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ وہ لوگ مجھ سے زیادہ سے زیادہ چالیس گز پیچھے ہیں، اور سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ ان کی رفتار مجھ سے زیادہ لگ رہی تھی۔
میں نے اپنی رفتار مزید بڑھانے کی کوشش کی، لیکن کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ البتہ میرے جسم پر پڑنے والی خونی خراشوں میں اضافہ ہو گیا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ گنوں کے ہلنے کی آوازوں کی وجہ سے میرے آگے بڑھنے کی سمت سے مسلسل باخبر لگ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں مجھے لگا کہ ہمارا درمیانی فاصلہ تیزی سے کم ہو رہا ہے، اور فوراً ہی مجھے اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی۔ ان میں سے کسی ایک، غالباً بکرم جیت سنگھ نے ایک طاقت ور ٹارچ اٹھا رکھی تھی اور وہ گنوں کے اوپری سبز پتے ہلنے سے میرے آگے بڑھنے کا جائزہ لے رہا تھا۔ یہ صورتِ حال میرے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔ مجھے اپنی حکمتِ عملی میں فوراً کوئی رد و بدل کرنا تھا۔
اچانک میں نے آگے بڑھنے کا سلسلہ روک دیا اور رینگنے کے انداز میں گنوں کی جڑوں کے درمیان سے ایک طرف بڑھنے لگا۔ پودے اب بھی کچھ کچھ ہل رہے تھے، لیکن شور اور ہل چل والی کیفیت ختم ہو گئی تھی۔ بکرم اور سورن سنگھ جب تک صورتِ حال کی یہ تبدیلی بھانپ سکتے، میں اپنے سابقہ مقام سے کم از کم دس گز دور ہٹ چکا تھا۔ اس کے بعد میں اکڑوں ہوکر ساکت بیٹھ گیا۔ میری نظریں گنوں کی قطاروں کے درمیان سے چھن کر آتی ٹارچ کی روشنی پر جمی ہوئی تھیں۔ میرے بھاگنے کے آثار ختم ہونے پر وہ دونوں حیرت زدہ لگ رہے تھے اور ان کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ اب کیسے مجھے تلاش کریں۔
پھر میں نے سورن سنگھ کی جوش بھری للکار سنی ’’ٹردے رہو سردار جی! لبھ کے چھلنی کر دینا اے آپاں اوس نوں!‘‘۔ (چلتے رہیں سردار جی! ہم ڈھونڈھ کر چھلنی کر دیں گے اس کو!)۔
بکرم جیت سنگھ نے اسے کچھ کہا، جو میری سمجھ میں نہیں آیا۔ بہرحال وہ دونوں ایک بار پھر آگے بڑھنے لگے۔ اب ان کی رفتار سست تھی اور ان کی ٹارچ کا رخ بار بار زمین کی طرف ہو جاتا تھا۔ میں سانس روکے ان کی پیش رفت کا مسلسل جائزہ لے رہا تھا۔ میرے اندازے کے عین مطابق ان کا رخ سیدھا میری طرف نہیں تھا۔ البتہ میری سیدھ میں آکر وہ ٹارچ کا رخ میری طرف کرتے تو میری جھلک مل سکتی تھی۔
پہلے میں نے فیصلہ کیا کہ رک کر چپ چاپ ان کے آگے جانے کا انتظار کروں گا اور پھر درمیانی فاصلہ بڑھتے ہی واپس کھیت سے باہر نکلنے کی کوشش کروں گا۔ اگر جیپ کے اگنیشن میں چابی لگی مل گئی، یا جیپ بغیر چابی کے اسٹارٹ ہوگئی تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ لیکن پھر مجھے اپنا یہ فیصلہ خلاف حقیقت لگا۔ میں جیسے ہی گنوں کو ہٹاکر چلنے کی کوشش کرتا، وہ لوگ میری پیش رفت سے آگاہ ہو جاتے اور اس مرتبہ مجھے نشانہ بنانے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔ تو پھر کیا میں یہیں دبکا رہوں؟۔
لیکن کچھ ہی دیر میں واضح ہو گیا کہ میں گنے کی فصل کے درمیان ساکت و صامت بیٹھ کر بھی اپنے دشمنوں سے زیادہ دیر بچا نہیں رہ سکوں گا۔ وہ دونوں اس دوران لگ بھگ میرے متوازی پہنچ چکے تھے اور ایک دوسرے کو خبردار کر رہے تھے کہ میں آس پاس ہی کہیں موجود ہوں۔ چند قدم مزید آگے بڑھ کر وہ دونوں رک گئے اور ادھر ادھرٹارچ کی روشنی مارنے لگے۔ وہ مجھ سے زیادہ سے زیادہ دس بارہ گز کے فاصلے پر رہے ہوں گے۔
پھر مجھے ان کی واضح جھلک دکھائی دی۔ سورن سنگھ بندوق سونتے گولی چلانے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ اس کی شاٹ گن کی نال بکرم سنگھ کے ہاتھ میں موجود ٹارچ کی روشنی کے ساتھ گردش کر رہی تھی۔ مجھے بکرم سنگھ کے دوسرے ہاتھ میں کوئی ہتھیار دکھائی نہیں دیا۔ مجھے لگا کہ میں بس کسی بھی لمحے ان کی نظروں میں آنے والا ہوں۔ اب اس خطرے سے نمٹنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ (جاری ہے)