برطانوی جیل میں مسلمان قیدی پر قاتلانہ حملہ

0

احمد نجیب زادے
برطانیہ کی اسٹرینج وے جیلمیں مسلمان قیدی حسین راشد عیسائی حملہ آور کی جانب سے قاتلانہ حملے میں لہو لہان ہوگیا۔ نیلسن نے نامعلوم وجہ کی بنا پر حسین راشد کو تیز دھار بلیڈ سے ذبح کرنے کی کوشش کی، جس سے مسلمان قیدی کی گردن اور کان پر گہرے زخم آئے ہیں۔ حسین راشد کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ادھر بند سیل میں عیسائی شدت پسند نیلسن کے گھسنے سے سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں۔ جبکہ جیل انتظامیہ نے معاملے دبانے کیلئے میڈیا سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔ واضح رہے کہ 32 سالہ حسین راشد دہشت گردی کے الزام میں ہائی سیکورٹی جیل میں قید ہے۔ گزشتہ دنوں ایک نسل پرست عیسائی نیلسن نے حسین کے سیل میں گھس کر اس پر حملہ کر دیا۔ گردن کاٹنے کی کوشش کے دوران حسین کے چہرے اور کان کے اطراف شدید زخم آئے ہیں۔ اسے تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا۔ برطانوی جیل حکام اور میڈیا نے واقعہ کی خبر روکنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ مانچسٹر میں میڈیا کو کافی تاخیر سے یہ خبر ملی کہ اسٹرینج وے جیل میں بدھ کی شب نیلسن نامی قیدی نے مسلمان قیدی حسین راشد کی گردن، چہرے اور کنپٹی پر تیز دھار چاقو سے حملہ کیا، جس کے نتیجہ میں پورا سیل خونم خون ہوگیا۔ حسین راشد جریان خون کے سبب بے ہوش ہوگئے۔ اس موقع پر ہونے والی چیخ و پکار کے نیتجے میں گارڈز نے سیل میں گھس کر قیدی نیلسن کو قابو کیا۔ جبکہ حسین راشد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال روانہ کیا گیا۔ برطانوی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حسین راشد کو معمولی زخم آئے ہیں، لیکن تفتیش کار اس بارے میں جانچ کررہے ہیں کہ نیلسن نے یہ انتہائی اقدام کیوں اُٹھایا اور اس کے پاس تیز دھار آلہ کہاں سے آیا۔ برطانوی جریدے ڈیلی اسٹار نے بتایا ہے کہ حملہ آور نے ایک تیز دھار بلیڈ کا استعمال کیا جس کی وجہ سے پورا سیل خونم خون ہوگیا۔ واضح رہے کہ حسین راشد کے بارے میں برطانوی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کا دعویٰ ہے کہ اس نے مارکیٹوں میں پھلوں کو سائنائیڈز کے انجکشن سے آلودہ کرنے اور خریداروں کو نشانہ بنانے کے علاوہ برطانوی ننھے شاہزادے پرنس جارج کو قتل کرنے کیلئے اس کے اسکول میں گھس کر حملہ کرنے کی پلاننگ کی تھی۔ حسین رشد کو نومبر2017 میں اس کے گھر سے بلا کسی مزاحمت گرفتار کیا گیا تھا اور اس پر ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا، جس کے بعد سے اسے ہائی پروفائل مجرم کی طرح ایک سیل میں بند رکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود حسین راشد کو ایک قیدی نے جیل کے اندر ہی حملہ کرکے شدید زخمی کردیا ہے۔ برطانوی حکام نے بتایا ہے کہ حسین راشد کو عدالت کی جانب سے 24 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس کو عمر قید والے ہائی پروفائل اور خطرناک قیدیوں کی طرح الگ رکھا گیا تھا۔ مانچسٹر سے شائع ہونے والے آن لائن جریدے مانچسٹر ایوننگ نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مسلمان قیدی حسین راشد کے بارے میں برطانوی پولیس افسر ولچٹر ٹین کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک جہادی جریدے کا خالق اور مدیر بھی تھا، جو وہ آن لائن شائع کرنا چاہتا تھا اور اس کا نام ’’تنہا مجاہد‘‘ رکھا تھا۔ لیکن وہ اس کو آن لائن شائع کرنے سے پیشتر ہی پکڑا گیا جبکہ برطانوی انٹیلی جنس اور عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حسین راشد دسمبر2017 میں شام جانے کا بھی ارادہ رکھتا تھا لیکن ایک ماہ قبل ہی پکڑا گیا۔ برطانوی جریدے ڈیلی سن نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بتیس سالہ حسین راشد پر الزام تھا کہ اس نے انسٹا گرام کی پوسٹوں سے مہم چلائی تھی کہ داعش کی فکر سے متاثر لوگوں کو چاہئے کہ شام میں داعش کیخلاف کارروائیوں اور بمباری میں شرکت پر برطانوی شاہی خاندان کو زک پہنچائی جائے اور ملکہ برطانیہ ایلزبتھ کے پڑ پوتے اور شاہزادہ ولیم کے صاحبزادے پرنس جارج کو ان کے اسکول میں حملہ کرکے ہلاک کر دینا چاہئے۔ برطانوی میڈیا نے بتایا ہے کہ مسلمان نوجوان حسین راشد شام و عراق میں داعش تنظیم کی فکر سے متاثر تھا اور اس نے داعش کی جانب سے برطانوی سرزمین پر حملوں کی حمایت کی تھی لیکن آزاد عالمی ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی کہ آیا حسین راشد واقعی برطانوی سرزمین پر داعشی حملوں اور بالخصوص شاہی خاندان کے ننھے چشم و چراغ پرنس جارج کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا۔ اس حوالے سے برطانوی اخبار ڈیلی ایکسپریس کا دعویٰ ہے کہ مسلمان نوجوان حسین راشد برطانوی معاشرے میں داعش کے کارندوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ برطانیہ میں حملہ کریں۔ برطانوی حکام کا دعویٰ ہے کہ حسین راشد نے اپنے حملوں کیلئے ٹیلی گرام کی ایپلی کیشن انسٹال کی تھی اور اس کی مدد سے پیغامات ارسال کئے تھے، لیکن چونکہ برطانوی سائبر سیکورٹی حکام تمام سماجی رابطوں کی سائیٹس پر نگاہیں رکھے ہوئے تھے، اس لئے حسین راشدکے پیغامات پکڑے گئے۔ جس کے بعد برطانوی شاہی گھرانے کے چشم و چراغ پرنس جارج کی سیکورٹی دوگنی کردی گئی تھی۔ ان کے اسکول کے راستے کو اب بھی کارڈن آف کردیا گیا ہے اور کسی بھی اجنبی کو اسکول کی ٹائمنگ میں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More