قسط نمبر 8
سید نبیل اختر
کے ایم سی کے کرپٹ افسران نے انٹر سٹی بس ٹرمنل کی 50 ایکڑ اراضی پر انکروچمنٹ ختم کرانے کے بجائے تجاوزات قائم کرنے والوں سے ڈیل کر لی ہے۔ غیر قانونی طور پر لیز کی جانے والی دکانیں توڑنے کے نوٹس بھیجنے کے علاوہ تا حال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق برساتی نالے پر غیر قانونی 42 شاپس، فی دکان 5 سے 10 لاکھ روپے میں فروخت کی گئی تھیں۔ جبکہ کے ایم سی افسران کی ملی بھگت سے 28 غیر قانونی دکانوں کو بھی لیز دی گئی۔ اس کے علاوہ بقایا 43 ایکڑ اراضی قبضے کرا کر متحدہ دہشت گردوں اور کے ایم سی افسران نے کروڑوں روپے بٹور کر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ کے ایم سی کے کرپٹ افسران سے مل کر متحدہ دہشت گردوں نے بلدیہ انٹر سٹی بس ٹرمنل کو بھی نہیں بخشا۔ ٹرمنل کے لئے محتص 43 ایکڑ اراضی پر چائنا کٹنگ کر کے ہزاروں پلاٹ کاٹے گئے۔ افتتاح کے بعد 28 دکانیں غیر قانونی طور پر لیز کرکے فروخت کی گئیں۔ برساتی نالے پر قائم 42 دکانوں کو بھی فی شاپ 5 لاکھ سے 10لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔ اراضی کی غیر قانونی لیز اور کرائے وصول نہ ہونے کی وجہ سے کے ایم سی کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ جبکہ چائنہ کٹنگ مافیا نے مزید سیکٹروں پلاٹ کاٹ کر فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
واضح رہے کہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور نظامت میں بلدیہ انٹر سٹی بس ٹرمنل کے قیام کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ انٹر سٹی بل ٹرمنل کی تعمیرات مصطفی کمال کے دور نظامت میں مکمل ہوئی اور دسمبر 2006ء میں اس وقت کے گورنر عشرت العباد اور مصطفی کمال نے ٹرمنل کا افتتاح کیا۔ بلدیہ یوسف گوٹھ میں قائم انٹرسٹی بس ٹرمینل بنانے کا مقصد شہر بھر میں قائم وہ تمام بس اڈے جہاں سے مسافر گاڑیاں بلوچستان کیلئے نکلتی تھیں، انہیں ختم کر کے شہر سے باہر قائم ٹرمنل کو منتقل کرنا تھا۔ اس وقت شہر میں بلدیہ ٹرمنل کے علاوہ مزید 2 ٹرمنل بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ابتدا میں مذکورہ ٹرمنل کی تعمیر کیلئے 10 ایکڑ اراضی مختص کی گئی تھی جسے8 مئی 2008ء میں منظور ہونے والی قرارداد نمبر 356 میں توسیع دیتے ہوئے 50 ایکڑ تک لے جایا گیا۔ دستاویزات کے مطابق محکمہ کچی آبادی کی جانب سے ضلعی حکومت کو یادداشت برائے شہری ضلع کونسل، شہری حکومت کراچی نمبر ڈی او / کچی آبادی / 125 2008 مورخہ 11 اپریل 2008ء پیش کی گئی جس کا موضوع انٹر سٹی بس ٹرمنل، یوسف گوٹھ، حب ریور روڈ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی مختص اراضی میں مزید توسیع کے منصوبے کی منظوری تھا۔ اس میں کہا گیا کہ انتظامی ضلع آفیسر، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن، شہری ضلع حکومت کراچی نے استدعا کی ہے کہ 1999ء میں مختص زمین برائے بس ٹرمنل ، متصل یوسف گوٹھ ، حب ریور روڈ ، بلدیہ ٹائون کراچی جس کا نوٹیفکیشسن منسلک ہے، سے متصل تقریباً پانچ ایکڑ زمین کو موجودہ بس ٹرمنل کی زمین کو برائے توسیعی منصوبہ کرنے کی منظوری شہری ضلعی کونسل عطا کرے۔ اس سلسلے میں بتانا ضروری ہے کہ یوسف گوٹھ بس ٹرمینل پر کام کی ابتدا 2004ء میں شروع کی گئی تھی اور اس پر ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد اس ٹرمنل کو 2 دسمبر 2006ء سے استعمال میں لایا جاچکا ہے۔ کیونکہ کراچی شہر میں بلوچستان جانے والی بسوں کیلئے یہ سب سے بڑا اور واحد بس ٹرمنل ہے جہاں صوبہ بلوچستان سے سیکڑوں مسافر بسیں اور کوچز روزانہ آتی اور جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد مکران اور گوادر آنے جانے والوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے، لہذا مسافروں کی ضروریات اور پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور انہیں ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچانے کی غرض سے ضلع شہری حکومت نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس بس ٹرمنل میں مزید توسیع کا منصوبہ بنایا ہے جو 50 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے۔ کیونکہ محکمہ ٹرانسپورٹ و کمیونیکیشن کی استدعا پبلک کے مفادات اور عوام الناس کو سہولیات بہم پہنچانے کے زمرے میں آتی ہے، جو عوام الناس کے بہتر مفاد میں ہے۔ لہذا محکمہ کچی آبادیز ضلع شہری حکومت اس ٹرمنل سے متصل تقریباً پانچ ایکڑ زمین جس کا متصل کچی آبادی یوسف گوٹھ سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے، جو پہلے سے ضلعی شہری حکومت کی تحویل میں بمعہ بائونڈری وال و گیٹ ہے، اس کو برائے توسیعی منصوبہ بس ٹرمنل ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن ضلعی حکومت کو حوالے کر رہی ہے، جس کی منظوری عطا کی جائے اور اس منصوبے کو ماسٹر پلان 2020ء میں شامل کیا جائے۔ اس مکمل منصوبے کو بس ٹرمنل کی اہم ضروریات کیلئے مختص کیا جائے تاکہ یہ زمین صرف مفاد عامہ کے لئے وقف ہو۔ اختتام پر شرح دستخط میں ضلع آفیسر ( کچی آبادیز ) شہری ضلع حکومت، کراچی درج تھے۔
’’امت‘‘ کو منظوری دستاویزات بھی ملے جس میں کہا گیا کہ یادداشت پر شہری ضلع کونسل، شہری ضلع حکومت، کراچی کے عام اجلاس منعقدہ بروز جمعرات مورخہ 8 مئی 2008 میں قرارداد نمبر 356 منظور ہوئی جس کا موضوع انٹر سٹی بس ٹرمنل، یوسف گوٹھ ، حب ریور روڈ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی مختص اراضی میں مزید توسیعی منصوبہ کی منظوری تھا۔ مذکورہ قرارداد کی تجویز ندیم ہاشمی نے دی جبکہ اس کی تائید شریف ارنسٹ، ایس معین، سید وقار حسین شاہ کی جانب سے کی گئی جس میں کہا گیا کہ شہری ضلعی کونسل، شہری ضلع حکومت کراچی کا آج کا یہ اجلاس انٹر سٹی بس ٹرمینل، یوسف گوٹھ ، حب ریور روڈ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی مختص اراضی میں توسیعی منصوبہ سے متعلق ضلع آفیسر ( کچی آبادی)، شہری ضلع حکومت کراچی کی دفتری یادداشت نمبر ڈی او / کچی آبادی / 125 مورخہ 11 اپریل 2008ء میں درج سفارشات کی منظوری عطا کرتا ہے۔ قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی۔ قرارداد کے اختتام پر شرح دستخط احسن احمد صدیقی، پریزائیڈنگ آفیسر، شہری ضلع کونسل شہری ضلع حکومت، کراچی درج ہے۔ تاہم 9 سال گزرنے کے باوجود ٹرمنل میں کسی قسم کی توسیع نہ ہوئی اور معاملہ صرف کاغذات تک ہی محدود رہا۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پرمعلوم ہوا کہ کے ایم سی کے سابق ڈائریکٹر لینڈ طارق نصیر اور ڈپٹی ڈائریکٹر آکشن، بلال نے ٹرمنل میں موجود دفاتر اور دیگر ایریا کی جعلی لیزیں بنا کر کروڑوں روپے وصولی کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ منصوبہ مصطفیٰ کمال کے سامنے پیش کیا گیا اور اس سے منظوری بھی حاصل کی گئی، اس طرح جنوری 2006ء سے ہی پچھلی تاریخوں میں غیر قانونی طور پر لیزوں کا اجرا شروع کیا گیا اور کروڑوں روپے بٹورے گئے۔ معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ بس ٹرمنل میں اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 1 کو 27 جنوری2007ء میں نیو سعید آباد بلدیہ ٹائون سیکٹر 4 ایف میں مکان نمبر 56 کے رہائشی غلام شریف ولد عبداللہ کو 14 لاکھ 50 ہزار روپے میں لیزکی گئی۔ اسی طرح اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 2، 23 لاکھ 40 ہزار روپے کے عوض عبدالواحد ولد محمد کو 31 جنوری 2007ء کو لیز کی گئی، مذکورہ شخص کا پتہ شاہ ولی اللہ روڈ لیاری میں مکان نمبر اے کے 1 85-70 درج کیا گیا۔ اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 3 لیاری چاکیواڑہ، گلی نمبر 6، مکان نمبر اے کے 10/63 کے رہائشی ساجد حسین ولد نور محمدکو 21 لاکھ 6 ہزار روپے میں لیزکی گئی۔ اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 4 بھی نیو سعید آباد بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 ایف میں مکان نمبر 56 کے رہائشی غلام شریف ولد عبداللہ کو12 لاکھ روپے کے عوض 13 دسمبر 2006ء کو لیزکی گئی۔ ٹک شاپ نمبر 1 کے ایم سی مارکیٹ نشتر روڈ گارڈن کے آفس نمبر 63 کے رہائشی فتح محمد آغا ولد سید جانان وزیر نامی شخص کو16 لاکھ روپے میں لیز کی گئی۔ محمد رفیق ولد عبدالغنی کے نام ٹک شاپ نمبر 3، 14 اپریل 2007ء میں 8 لاکھ 80 ہزار روپے میں لیز کی گئی، مذکورہ شخص آصف آرکیڈ بہادر آباد، طارق روڈ کارہائشی ہے۔ 4 جنوری 2007ء کو ٹک شاپ نمبر 4 محمد علی حسین ولد امام الدین خان کو 10 لاکھ روپے میں لیز کی گئی۔ علی حسین گلشن اقبال انارکلی آرکیڈ میں فلیٹ نمبر ایف 1 کا رہائشی ہے۔ محمد رشید خان ولد عبدالرحیم خان کے نام پر ٹک شاپ نمبر 5، 4 جنوری 2007ء کو 10 لاکھ روپے میں لیز کی گئی جس کا رہائشی پتہ بلدیہ سیکٹر 8 بی ، مکان نمبر ایس ٹی 30 درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 6، 20 لاکھ 80 ہزار میں شاہد ولد محمد شریف کو 22 اکتوبر 2007ء کو لیز کی گئی۔ پتہ مکان نمبر 436 سیکٹر 8 اے بلدیہ ٹائون درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 7 حاجی یونس گناترا ولد حاجی موسی گناترا کے نام پر 26 دسمبر 2006ء کو 5 لاکھ 28 ہزار روپے میں لیز کی گئی، مذکورہ شخص کا پتہ میمن پلازہ بلاک 13 بی میں مکان نمبر سی 21 درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 8 کو 26 دسمبر 2006ء میں منصور احمد خان ولد مقصود احمد خان کے نام پر 3 لاکھ 80 ہزار میں لیز کیا گیا، پتہ ٹی ایریا ، کورنگی نمبر 2 ، سیکٹر 41 اے ، مکان نمبر 190 درج ہے۔ ٹک شاپ نمبر 9 غلام شریف ولد عبداللہ کوجنوری 2006ء کو 4 لاکھ 84 ہزار میں لیز کیا گیا، مذکورہ شخص کا پتہ مکان نمبر 56، سیکٹر 4 ایف بسم اللہ چوک نیو سعد آباد درج ہے۔ اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 1 کو 27 جنوری2007ء میں نیو سعید آباد بلدیہ ٹائون سیکٹر 4 ایف میں مکان نمبر 56 کے رہائشی غلام شریف ولد عبداللہ کو 14 لاکھ 50 ہزار روپے میں لیزکیا گیا۔ اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 2، 23 لاکھ 40 ہزار روپے کے عوض عبدالواحد ولد محمدکو31 جنوری 2007ء کو لیز کی گئی، مذکورہ شخص کا پتہ شاہ ولی اللہ روڈ لیاری میں مکان نمبر اے کے 1 85-70 درج کیا گیا۔ اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 3 لیاری چاکیواڑہ ، گلی نمبر 6 ، مکان نمبر اے کے 10/63 کے رہائشی پتے کے ساتھ ساجد حسین ولد نور محمد کو 21 لاکھ 6 ہزار روپے میں لیز کی گئی۔ اسپیئر پارٹس کی دکان نمبر 4 بھی نیو سعید آباد بلدیہ ٹائون سیکٹر 4 ایف میں مکان نمبر 56 کے رہائشی غلام شریف ولد عبداللہ کو 12 لاکھ روپے کے عوض 13 دسمبر 2006ء کو لیزکی گئی۔ ٹک شاپ نمبر 1 کے ایم سی مارکیٹ نشتر روڈ گارڈن کے آفس نمبر 63 کے پتے کے ساتھ فتح محمد آغا ولد سید جانان وزیر نامی شخص کو 16 لاکھ روپے میں لیز کی گئی۔ محمد رفیق ولد عبدالغنی کے نام پر ٹک شاپ نمبر 3، 14 اپریل 2007ء میں 8 لاکھ 80 ہزار روپے میں لیز کی گئی۔ مذکورہ شخص کا پتہ آصف آرکیڈ ، بہادر آباد، طارق روڈ درج بتایا گیا۔ 4 جنوری 2007ء کے روز ہی ٹک شاپ نمبر 4 محمد علی حسین ولد امام الدین خان نامی شخص کو 5 لاکھ روپے میں لیز کی گئی اور مذکورہ شخص کا پتہ گلشن اقبال انارکلی آرکیڈ میں فلیٹ نمبر ایف 1 درج کرایا گیا۔ محمد رشید خان ولد عبدالرحیم خان کے نام ٹک شاپ نمبر 5، 4 جنوری 2007ء کو 10 لاکھ روپے میں لیز کی گئی جس کا پتہ بلدیہ سیکٹر 8 بی، مکان نمبر ایس ٹی 30 درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 6 ، 20 لاکھ 80 ہزار میں محمد شاہد ولد محمد شریف کو 22 اکتوبر 2007ء کو لیز کی گئی جبکہ اس کا پتہ مکان نمبر 436 سیکٹر 8 اے بلدیہ ٹائون درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 7 حاجی یونس گناترا ولد حاجی موسی گناترا کے نام پر 26 دسمبر 2006ء کو 5 لاکھ 28 ہزار روپے میں لیز کی گئی، مذکورہ شخص کا پتہ میمن پلازہ بلاک 13 بی میں مکان نمبر سی 21 درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 8، 26 دسمبر 2006ء میں منصور احمد خان ولد مقصور احمد خان کے نام پر 3 لاکھ 80 ہزار میں لیز کی گئی، مذکورہ شخص کا پتہ ٹی ایریا ، کورنگی نمبر 2 ، سیکٹر 41 اے ، مکان نمبر 190 درج کیا گیا۔ ٹک شاپ نمبر 9 غلام شریف ولد عبداللہ کو 26 جنوری 2006ء کو 4 لاکھ 84 ہزار میں لیز کی گئی، مذکورہ شخص کا پتہ مکان نمبر 56، سیکٹر 4 ایف بسم اللہ چوک نیو سعد آباد درج ہے۔
تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ 2006ء میں بس ٹرمنل چلانے کا ٹھیکہ فائن مینجمنٹ کو دے دیا گیا، جسے جون 2008ء تک انضباط نامی شخص نے آپریٹ کیا۔ ٹھیکے دار کو بس ٹرمنل سے آمدنی نہ ہونے پر پریشانی لاحق ہوئی تو نومبر 2006ء میں سٹی ڈسٹرک گورنمنٹ کے محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کرائے کے حوالے سے نوٹیفکیشن TCD/ DO (PTM) /InterCity (Y.Goth) /2006/884 جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ متعلقہ اتھارٹی نے ٹرمنل کے ٹھیکے دار کو کرائے کی وصولی کے لئے اجازت نامہ جاری کیاہے ، جس کے مطابق ٹرمنل میں انٹری اور پارکنگ فیس کی مد میں 24 گھنٹے کے لئے فی بس 350 روپے چارجنگ فیس مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح کوسٹر کی انٹری اور ٹرمنل میں 24 گھنٹے پارکنگ فیس 250 روپے مقرر کی جبکہ 24 گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کی صورت میں اگلے 24 گھنٹے کے لئے پارکنگ کی مد میں فی بس 175 اور کوسٹر سے 100 روپے اضافی فیس مقرر کی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق بکنگ آفس رینٹ کی مد میں ایک دفتر کا ماہانہ کرایہ 3 ہزار 500
روپے جبکہ اس کی مینٹی ننس کی مد میں ایک ہزار روپے فیس مقرر کی گئی۔ اسی طرح ریٹرننگ روم کا ماہانہ کرایہ 2 ہزار 500 اور اس کی مینٹیننس کی مد میں 1 ہزار روپے فیس مقرر کی گئی۔ تاہم کسی نے بھی کبھی کوئی کرایہ ادا نہیں کیا۔ اراضی اور دفاتر استعمال کرنے والے افراد نے سٹی گورنمنٹ کی جاری کردہ جعلی لیزوںکو بنیاد بنا کر موقف اختیار کیا کہ یہ تو ہماری اپنی ملکیت ہے۔ ہم اس کا کرایہ کیوں ادا کریں۔ انضباط ملک نے یہ ٹھیکہ جون 2006ء سے جون 2008ء تک اسے چلایا۔ 2008ء میں ٹھیکہ ختم ہونے کے بعد کچھ ماہ بس ٹرمنل، کے ایم سی نے خود چلایا جس کے بعد اسے دوبارہ ٹھیکے پر دے دیا گیا۔ اس بار عرفان عبداللہ انٹر پرائزز نے دوسری بار اس ٹرمنل کا ٹھیکہ لیا جس کے بعد 2009ء سے 2012ء تک اسے ٹھیکے دار کے ذریعے چلایا جاتا رہا اور پھر متحدہ کے رہنما اشفاق منگی نے اس کی باگ ڈور سنبھال لی اور پھر اپنے ہی ایک کارکن آصف شاہ کو ٹرمنل کا انچارج مقرر کردیا۔ اسی دوران ٹرمنل میں واقع برساتی نالے پر غیر قانونی طور پر 41 دکانیں بنائی گئیں جنہیں 5 سے10 لاکھ روپے میں فروخت کردیا گیا۔ ان دکانوں کو غیر قانونی طور پر بجلی فراہم کی گئی جبکہ چند کے ایم سی افسران کی جانب سے ان غیر قانونی دکانوں کو لیز دلوانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ انٹر سٹی بس ٹرمینل کی حدود میں 2012ء میں 41 غیر قانونی دکانیں اور ایک ہوٹل تعمیر کیا گیا تھا۔ مذکورہ غیر قانونی دکانیں اس وقت کے ٹھیکے دار نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بنا کر فی دکان5 سے 10لاکھ روپے اور اس سے زائد میں فروخت کیں۔ جبکہ ٹرمنل میں قائم پولیس چوکی کے ساتھ ہی ایک غیر قانونی ہوٹل بھی تعمیر کیا گیا۔ مذکورہ ٹرمنل دوسری بار ٹھیکے پر دے دیا گیا، جس کے بعد ٹرمنل اشفاق منگی کی سرپرستی میں آصف شاہ چلاتا رہا۔
گزشتہ سال جنوری میں میونسپل کمشنر بلدیہ کی جانب سے نئے کرایہ کے حوالے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو بھیجی گئی یادداشت میں کہا گیا کہ (2012ء میں کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد ٹرمنل کا انتظام کے ایم سی نے سنبھالا۔ 2012ء سے 2018ء جنوری تک ٹرمنل میں موجود ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کسی بھی آفس کا کرایہ کے ایم سی کو ادا نہیں کیا گیا ) میونسپل کمشنر بلدیہ کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو 31 جنوری 2017ء میں ایک یادداشت نمبر SR.DIR/MS/4046/17 بھیجی گئی جس کا موضوع، یوسف گوٹھ بس ٹرمنل سے متعلق بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ بلو چستان بس مالکا ن ایسوسی ایشن کے درمیان طے شدہ معاملات کی منظوری، تھا۔ یادداشت میں کہا گیا کہ کراچی سے صوبہ بلوچستان آنے جانے والے مسافروں کی سہو لت کے لئے کالعدم شہری ضلع حکومت کراچی نے یوسف گوٹھ،بلدیہ ٹائون کراچی میں ایک بس ٹرمنل قائم کیا جو آج تک کراچی اور بلوچستان کے لو گوں کے مفاد کیلئے کام کر رہا ہے جس میں ادارے کی جا نب سے 53 بکنگ آفسز کرایہ پر دیئے گئے تھے جبکہ دیگر 8 دکانیں، ہو ٹل اور آفسز نیلام کے ذریعے لیز پر دیئے گئے۔ واضح رہے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی علیحدہ حیثیت میں بحالی کے بعد مذکورہ بس ٹرمنل اب محکمہ میونسپل سروسز کے ماتحت آگیا ہے جبکہ بس ٹرمنل کو تحویل میں لینے کے بعد یہ با ت معلوم ہوئی ہے کہ اس پروجیکٹ کی تمام اصل فائلز کے ڈی اے کے پا س ہیں۔ یادداشت میں بتایا گیا کہ چونکہ مذکورہ یوسف گوٹھ بس ٹرمینل بلدیہ عظمیٰ کراچی کی آ مدنی کا ذریعہ ہے، لہٰذا بس ٹرمنل کے معاملات کو حل کرنے کے لئے، میئر کراچی وسیم اختر کی زیر صدارت مورخہ 14اپریل 2017ء کو سند ھ بلوچستان بس مالکان ایسوسی ایشن کے ساتھ اجلاس منعقد ہوا اور مندرجہ ذیل معاملات طے پائے جس کے مطابق 53 بکنگ آفسز جن کا کرایہ جو پہلے 35 سو روپے ماہانہ تھا اسے بڑھا کر 5 ہزار روپے ماہانہ کیا گیا اور 10فیصد سالانہ اضافہ طے کیا گیا۔ جبکہ کرائے کی مد میں بقایا جات کے معاملات باہمی رضامندی سے بعد میں طے کرنے کا کہا گیا۔ بسوں کی آمد اور پارکنگ فیس 350 روپے برائے 24 گھنٹے سے بڑھا کر 450 روپے 24 گھنٹے کی گئی جبکہ اس مد میں بھی سالانہ 10فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی۔ اسی طرح کوسٹرز کی آمد و روانگی اور پارکنگ کی فیس 250 روپے برائے 24 گھنٹے سے بڑھا کر 350 روپے برائے 24 گھنٹے کے ساتھ سالانہ 10فیصداضافہ کی منظوری دی گئی۔ آرام گاہ کا کرایہ 25 سو روپے ماہانہ سے بڑھا کر 3 ہزار روپے ماہوار جبکہ آرام گاہ کی دیکھ بھال کے چارجز ایک ہزار روپے ماہانہ سے 2 ہزار روپے ماہانہ مقرر کئے۔ یادداشت میں بتایا گیا کہ یوسف گوٹھ ٹرمنل کی تکمیل کے بعد کالعدم شہری ضلع حکومت کراچی کی جانب سے 28 مختلف دکانیں ،ہوٹل اور آفس وغیرہ 10سال کی لیز پر دیئے گئے جن کی مدت2016ء میں ختم ہوگئی ہے اور کے ڈی اے کی علیحدہ حیثیت میں بحالی کے بعد اس معاملہ کا کوئی حل بھی نہیں نکل سکا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ملتوی شدہ عام اجلاس 4 اگست2017ء کو ہوا جس میں قرارداد نمبر 81 کی منظوری دی گئی مذکورہ قرارداد کا موضوع یوسف گوٹھ بس ٹرمینل سے متعلق بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ بلوچستان بس مالکان ایسوسی ایشن کے درمیان طے شدہ معاملات کی منظوری تھا۔ اس کی تجویز خرم فرحان اور تائید سلمیٰ آصف، زیب النسا نے دی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا آج یہ اجلاس یوسف گوٹھ بس ٹرمنل سے متعلق بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ بلو چستان بس مالکان ایسوسی ایشن کے درمیان طے شدہ معاملات سے متعلق میونسپل کمشنر ،بلدیہ عظمیٰ کراچی کی یادداشت نمبرSR.DR/MS/4046/17 مورخہ 31جو لائی2017میں درج سفارشات کی منظوری عطا کرتا ہے۔ مذکورہ قرار داد کثرت رائے سے منظور کی گئی جبکہ قرار داد کے اختتام پر ڈپٹی میئر کراچی ڈاکٹر ارشد عبد اللہ وہرہ کا نام اور دستخط موجود ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی کے کرپٹ افسران اور بلدیہ سیکٹر میں موجود متحدہ دہشت گرد ٹرمنل کی 43 ایکڑ اراضی پر چائنہ کٹنگ کرکے پلاٹ فروخت کیئے گئے اور کروڑوں روپے بٹورے گئے۔ ذرائع نے کہنا ہے کہ ٹرمنل پر تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے نوٹس بھجوائے، تاہم ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی کارروائی نہیں کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر رضا عباس رضوی نے کے ایم سی کے اعلیٰ افسران کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی ڈیل کر لی ہے، واضح رہے کہ رضا عباس، متحدہ رہنما حیدر عباس رضوی کے بھائی ہیں۔