وزیر خزانہ کی معاشی پالیسیوں پر پی ٹی آئی میں بھی تحفظات

0

مرزا عبدالقدوس
ملک میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے نہ صرف عوام اور تاجر برادری پریشان ہے، بلکہ وزیر خزانہ اسد عمر کی معاشی پالیسیوں اور فیصلوں سے خود حکومت اور حکمران جماعت تحریک انصاف کے اندر بھی خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ جس کا اظہار دبے لفظوں میں بعض وزرا اور حکومتی ذمہ دار نجی محفلوں میں کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان کے خوف اور اسد عمر کی وزیر اعظم سے قربت کی وجہ سے کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول گزشتہ روز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے عمران خان کی موجودگی میں وزیر خزانہ اسد عمر پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ’’آپ کی ناقص اور غلط معاشی پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے عوام کا ہمارے اوپر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ مخالف سیاسی جماعتوں خصوصاً نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہماری پالیسیوں کیخلاف بیانیے کو تقویت مل رہی ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے چند ہفتوں میں مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے اسد عمر کی تاویلات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ چند بیوروکریٹس کے ساتھ مل کربند کمروں میں خود ہی اہم معاشی فیصلے کرتے ہیں، جن میں سے بیشتر غلط ثابت ہوئے ہیں اور ان فیصلوں کا ہمیں عوام اور میڈیا کے سامنے دفاع کرنا پڑتا ہے۔ غلط فیصلوں سے نہ صرف عوام کے سامنے پارٹی اور اس کی قیادت کی سبکی ہو رہی ہے۔ بلکہ پارٹی قائد کی اہلیت پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں‘‘۔ ذرائع کے مطابق اتوار کی شام ہونے والی اس میٹنگ میں وزیر اعظم عمران خان بھی موجود تھے، جنہوں نے ابتدا میں چپ رہ کر گویا جہانگیر ترین کے موقف کی تائید کی۔ ذرائع کے بقول جب جہانگیر ترین نے اسد عمر کی کوئی وضاحت سننے کی بجائے ان پر تنقید جاری رکھی تو بے بس ہوکر اسد عمر نے کہا کہ اگر ان کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو عوامی و قومی سطح پر نقصان ہو رہا ہے تو وہ ابھی خوش دلی سے (Step Down) کرنے کو تیار ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ وہ نیک نیتی سے اپنی وزارت چلا رہے ہیں، لیکن اگر پارٹی مطمئن نہیں تو وہ ابھی استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے مداخلت کرتے ہوئے جہانگیر ترین سے کہا کہ معاملات کو دیکھنے اور موجودہ صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اسد عمر کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں آپ کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔ ہماری حکومت کو ورثے میں جو خراب معاشی حالات ملے ان کی وجہ سے عوام میں بے چینی ہے، جسے ہم نے دور کرنا ہے اور آپس میں مشاورت سے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے ٹیم ورک کو آگے بڑھانا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے اسد عمر سے کہا کہ وہ اس تنقید کو پارٹی مفاد میں برداشت کریں اور اعتماد کے ساتھ کام جاری رکھیں۔
دوسری جانب وزارت خزانہ کے ترجمان نے جہانگیر ترین اور وزیر خزانہ کے درمیان تلخ کلامی کو پارٹی کے اندر مثبت اور تعمیری بحث قرار دیا ہے۔ جبکہ جہانگیر ترین نے اس تلخی کی سرے سے تردید کی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اور اسد عمر کے درمیان سیاسی چپقلش عرصے سے جاری ہے۔ پارٹی میں دونوں کے گروپ گزشتہ کئی سال سے موجود ہیں۔ جبکہ تیسرا بڑا گروپ مخدوم شاہ محمود قریشی کا تھا۔ ماضی میں جب عمران خان پر نااہلی کی تلوار لٹکنے لگی تھی تو شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے ساتھ اسد عمر بھی اپنے آپ کو عمران خان کے جانشین کے طور پر نمایاں کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اگرچہ کہ اب جہانگیر ترین خود نااہل ہیں لیکن تحریک انصاف کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے ہیں کہ وفاقی اور پنجاب حکومت میں مرکزی کردار جہانگیر ترین کا ہے اور کئی وفاقی و صوبائی وزرا کا انتخاب ان ہی کی سفارش پر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین زرعی اور صنعتی شعبے کی بھی اہم شخصیت ہیں اور معاشی پالیسیوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد بھی وزیر اعظم کے سامنے اسد عمر کی مالی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنا چکے ہیں۔ خاص طور پر ڈالر کی لمبی چھلانگ اور اسٹاک ایکسچینج میں ایک ہی دن میں 1406 پوائنٹس کی کمی نے تمام وزرا کو خاصا مایوس کیا ہے۔ وزرا اور پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو روز بروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوامی دبائو کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اپنی سو روزہ کارکردگی کے کارنامے گنوا رہی تھی، لیکن ڈالر کی اونچی اڑان نے اسے دفاع پر مجبور کردیا۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر جہانگیر ترین نے اسد عمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔
واضح رہے کہ تمام وفاقی وزرا نے اپنی وزارتوں کی سو روزہ کارکردگی کی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی تھی، جس کا اب وہ عمیق نگاہوں سے نہ صرف جائزہ لے رہے ہیں بلکہ ان وزارتوں کے آئندہ کے مقرر کردہ اہداف کو بھی جانچ پرکھ رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول عمران خان بعض وزرا کی کارکردگی سے خاصے مطمئن ہیں۔ ان وزرا میں فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد اور فروغ نسیم وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم بعض وزرا جن میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کی اکثریت شامل ہے، ان کی کارکردگی عمران خان کے نزدیک مایوس کن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان وزرا کے قلمدان تبدیل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ البتہ اعظم سواتی، جن پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، ان کے علاوہ کسی وزیر کو عہدے سے فارغ کئے جانے کا امکان خاصا کم ہے۔ ذرائع کے بقول وزیر مملکت علی محمد خان اور مراد سعید کو مکمل وزارتیں دی جا سکتی ہیں۔ جبکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کے بیٹے، رکن قومی اسمبلی چوہدری مونس الہیٰ بھی بہت جلد وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ انہیں وزارت صنعت کا قلمدان سونپا جاسکتا ہے، جو یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں ان کے والد پرویز الٰہی کے پاس تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More