پی ایس پی کو قومی اسمبلی کی6نشستیں دینے کی یقین دہانی ملی تھی

0

امت رپورٹ
پتہ نہیں کسی نے توجہ دی ہے یا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں مکمل یا جزوی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور انہیں مرکزی حکومت کے اقتدار سے دور کر دیا گیا ہے۔ ان میں نواز لیگ۔ پیپلز پارٹی۔ جماعت اسلامی۔ جمعیت علمائے اسلام۔ اے این پی۔ مہاجر قومی موومنٹ اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ جبکہ مذہبی یا دینی پس منظر رکھنے والی ایسی جماعتیں بھی مقابلے سے باہر کر دی گئیں۔ جن پر امریکہ یا بھارت کو اعتراض تھا۔ یا جن کے آگے آنے سے یورپی یونین اور برطانیہ کو تکلیف ہو سکتی تھی۔ ان میں ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک پاکستان شامل ہیں۔ اہم تجزیاتی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتوں کی ناکامی کو اتفاقی امر سمجھنا مشکل ہے۔ کیونکہ ان جماعتوں کے سربراہوں سمیت کئی ایسے امیدوار بھی ہار گئے۔ جنہیں ان کے مخالفین بھی جیتا ہوا قرار دیتے تھے۔ ذرائع کے بقول سب سے زیادہ سخت ضرب جماعت اسلامی۔ متحدہ اور پاک سر زمین پر پڑی۔ تاہم متحدہ اور کمال گروپ کی ہار کے اسباب کچھ اور تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات سے چند دن پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بیان دیا تھا کہ انہیں سادہ اکثریت نہ ملی تو وہ پیپلز پارٹی سے مل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔ بلکہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ ذرائع کے بقول یہ بیان عوام کے لئے نہیں بلکہ ان کے لئے تھا۔ جنہیں عمران مخاطب کرنا چاہتے تھے۔ اس موقف میں تبدیلی نہ کرنے کے نتیجے میں ہنگامی طور پر کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہوگئیں۔ ورنہ اس سے قبل ایک مخلوط حکومت کے مضبوط اشارے مل رہے تھے۔ تحریک انصاف چھوٹی موٹی جماعتوں اور آزاد ارکان سے بات کرنے پر تو تیار تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی خصوصاً آصف زرداری سے مل کر حکومت بنانے پر آمادہ نہ تھی۔ اس لئے نتائج کے پیٹرن میں کچھ تبدیلی ہوگئی۔ وسطی پنجاب۔ خیبرپختون اور کراچی سب سے زیادہ تبدیلی کی زد میں آئے۔ ذرائع کے بقول خیبرپختون میں تو بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ اور ایم ایم اے سمیت وہاں کی دیگر متاثرہ جماعتیں سڑکوں پر آگئیں سوائے جماعت اسلامی کے۔ لیکن ان کا احتجاج نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے بغیر ادھورا ہے۔ نواز لیگ پنجاب حکومت بنانے کے لئے نگ پورے کر رہی ہے۔ اگلے دو دن میں اسے پتہ لگ جائے گا کہ نگ پورے ہوتے ہیں یا نہیں۔ تبھی وہ احتجاجی تحریک کا حصہ بن سکتی ہے۔ پنجاب میں نگ پورے کرنے کے لئے اسے پی پی کی حمایت مل جائے تو وہ آسودہ ہو سکتی ہے۔ جبکہ اس حمایت کی قیمت پیپلز پارٹی مرکز میں ان سے وصول کرسکتی ہے۔ جہاں زرداری کو وزیر اعظم کا امیدوار بنوانے پر غور کیا جارہا ہے۔ تب پی پی مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی اپنا شیئر وصول کر سکتی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی یقینی حکومت بچانے کے لئے پر عزم ہے۔ اور وہ اسمبلی کا حصہ بننے کا اعلان کرچکی ہے۔ اس لئے وہ احتجاج کا حصہ نہیں بنے گی۔ تاہم کراچی میں جہاں ہارنے والے جماعتوں کے مرکزی دفاتر میں مجلس شام غریباں تو روز برپا ہو رہی ہے۔ لیکن کسی عوامی احتجاج کی کال دینے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ ایک اہم ذریعے کے بقول ایم کیو ایم پاکستان کو قومی اسمبلی کی 8 نشستیں ملنے کی یقین دہانی تھی۔ جبکہ پاک سر زمین کے رہنماؤں کے بقول انہیں چھ نشستیں دینے کا اطمینان دلایا گیا تھا۔ اسی طرح مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کو بھی ایک نشست کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ جہاں سے وہ خود کھڑے تھے۔ ذریعے کے مطابق متحدہ کراچی کے 21 قومی حلقوں پر الیکشن لڑرہی تھی۔ جبکہ پاک سر زمین بھی اتنی ہی نشستوں پر امیدوار تھی۔ اسی طرح مہاجر قومی موومنٹ بھی 12 حلقوں سے الیکشن لڑ رہی تھی۔
ذریعے کے مطابق عمران خان کی جانب سے سادہ اکثریت کے مطالبے کے بعد اندیشہ تھا کہ کراچی اور خیبرپختون کے نتائج غیر متوقع آئیں گے۔ چنانچہ پہلی ضرب پاک سر زمین پر پڑی۔ اور اسے 6 نشستوں کی یقین دہانی ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ پی ایس پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ انہیں آخری وقت میں دو نشستوں کی پیش کش کی گئی تھی۔ جو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے مسترد کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری نشستیں ہار گئے۔ اسی طرح متحدہ کی پوزیشن 8 حلقوں میں بہت مضبوط تھی۔ ان میں حلقہ 255 سے خالد مقبول جیتے۔ 253 سے اسامہ قادری۔ 251 سے امین الحق۔ جبکہ 240 سے ڈپٹی اقبال نے کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے کہ 240 وہ حلقہ تھا، جہاں سے مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد بھی کھڑے تھے۔ اور انہیں تمام متعلقہ حلقوں سے جیت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ آفاق احمد الیکشن لڑنے پر تیار نہ تھے۔ لیکن انہیں بار بار اطمینان دلا کر کھڑا کیا گیا۔ پولنگ کی صبح 6 بجے تک انہیں یہ یقین دہانی کرائی جاتی رہی۔ لیکن وہ پھر بھی سیٹ ہار گئے اور ایم کیو ایم کے ڈپٹی اقبال جیت گئے۔ مسئلہ یہ ہوا تھا کہ تحریک انصاف کی مطلوبہ نشستیں پوری کرنے کے لئے متحدہ سے چار حلقے لئے تھے۔ اور انہیں آٹھ کی جگہ چار نشستیں دینی تھیں۔ یقینی جو حلقے متحدہ کے ہاتھ سے نکلے۔ ان میں فاروق ستار کا حلقہ 245 تھا۔ جہاں سے پی ٹی آئی کے عامر لیاقت غیر متوقع طور پر جیتے۔ علی رضا عابدی کا حلقہ 243 تھا۔ جہاں سے پی ٹی آئی کے عمران خان کو جتوانا ضروری تھا۔ اور وہ جیتے۔ یہاں سے ڈبے کھلے تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ عامر چشتی کا حلقہ 256 تھا۔ جہاں سے پی ٹی آئی کے نجیب ہارون کو کامیابی ملی۔ عامر معین کا حلقہ 241 تھا۔ جہاں سے پی ٹی آئی کے فہیم خان جیتے۔ اور سہیل منصور کا حلقہ 239 تھا۔ جہاں سے پی ٹی آئی کے محمد اکرم کامیاب ہوئے۔ متحدہ کے ڈپٹی اقبال کی قسمت کا تالا حلقہ 240 میں کھلا۔ جہاں آفاق احمد شکست کھا گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل رمضان میں اسلام آباد میں عامر خان اور مصطفیٰ کمال کے درمیان اتحاد کرانے کے لئے ایک ملاقات کرائی گئی تھی۔ جو اس وجہ سے ناکام ہوگئی کہ کمال متحدہ کے نام سے سیاست کرنے پر آمادہ نہ تھے اور عامر خان متحدہ کا نام چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ اسی لئے اتحاد بنتے بنتے رہ گیا۔ بعد میں بھی ایسی دو اور کوششیں ناکام ہوئیں۔ لیکن ذریعے کے بقول یہ اتحاد بن بھی جاتا تب بھی اولیت تحریک انصاف کو ہی حاصل تھی۔ اور مطلوبہ اکثریت کے ساتھ اس کا جیتنا ناگزیر تھا۔ کراچی میں چار اپ سیٹ اور ہوئے۔ ان میں حلقہ 244 سے متحدہ کے رئوف صدیقی کھڑے تھے۔ وہ ہار گئے اور پی ٹی آئی کے علی زیدی جیت گئے۔ اسی طرح 242 سے کشور زہرہ (متحدہ) ہار گئیں اور سیف الرحمان (پی ٹی آئی) جیت گئے۔ ماضی میں یہ ایم ایم اے کے اسداللہ بھٹو کی سیٹ تھی۔ لیکن وہ بھی ہار گئے۔ اسی طرح 237 سے حکیم بلوچ ہار گئے اور پی ٹی آئی کے جمیل احمد جیت گئے۔ حکیم بلوچ ایسے سیاستدان تھے۔ جو کسی بھی جماعت میں ہوتے تب بھی کامیاب ہی ہوتے۔ ان کی شکست پر علاقے میں احتجاج ہو رہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More